اپر چترالتورکھوکالم نگار

چترال بالا، تورکھو کا علاقہ کھوت، ایک دلچسپ سیاحتی مقام ہوسکتا ہے۔

عنایت جلیل قاضی

کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں ایک بابا، اہل وعیال کے ساتھ اس علاقے میں رہا کرتے تھے۔ ایک دفع، موسم سرما میں شدید برف باری ہوتی ہے لیکن ایک جگہ برف سے بالکل خالی نظرآتی ہے۔ بابا گرتے پڑتےاس مقام تک پہنچتا ہے تو وہاں کسی کے سر یا داڑھی کا ایک بال، چمکتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔ بابا اس مبارک بال کو اُٹھا کر گھر لےآتا ہے اور دن بھر تجسس اور تبصروں کے بعد، رات کو حسب معمول نیند کی سفر پر چلا جاتا ہے۔ اسی دوران بابا ایک عجیب سا خواب دیکھتا ہے کہ کوئی درویش اس بال کو اٹھاکر رفو چکر ہورہا ہے۔ اسی عالم پریشانی میں بابا کی آنکھ کھل جاتی ہے اور ڈھوںڈنے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ مبارک بال حقیقتاً غائب ہے۔ بابا، برف پر اس درویش کے پیروں کی نشان پر بھاگے جاتا ہے اور اس علاقے کی آخری سرحد پر اس درویش کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ شائد اس وقت اس درویش سے بابا کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی عام بال نہیں بلکہ یہ گیسوئے مبارک نبی آخرالزمان ﷺ سے منصوب ہے۔ کافی مُڈھ بیر کے بعد،بابا ان سے یہ مبارک بال چھین کر واپس لے آتا ہے۔ بابا اس کی حفاظت کے لئے سات صندوق بناتا ہے، پھر سات کمرے (بِنا دروازہ، کھڑکی) بناکر،اس گیسوئے مبارک کو ان کے اندر چھپا دیتا ہے اور اسی مناسبت سے اس جگے کا نام بھی گیسو پڑجاتا ہے۔ (واللہ اعلم)۔ اس حوالے سے میں نے ایک عالم دین سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اُس پاک نام کی نسبت سے اس جگے کا احترام واجب ہے۔ امکانات وممکنات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آخری حج کے موقع پرحضرت محمد ﷺ نے جب سرمبارک منڈھوائے تھے، تب وہیں پر موجود صحابہ کرام نے یہ بال بطور تبرک اٹھالئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ان گیسوئے مبارک میں سے کوئی یہاں تک پہنچا ہو۔

اس گیسوئے مبارک کے سائے تلے آباد، علاقہ کھوت، سطح سمندر سے 9000 فٹ سے ذیادہ بلندی پرواقع، میدانی علاقہ ،چترال شہر سے لگ بھگ 120 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ یہ علاقہ شرح تعلیم اور مثالی امن کی وجہ سے چترال بھر میں مشہور ہے۔ آپ لوگوں کو یہ سن کرحیرت ہوگی کہ اس چھوٹے سے علاقے میں کوئی بیس سے پچیس پی ایچ ڈی اور ایم فل سکالرز موجود ہیں۔علاقے کے باسی انتہائی شریف النفس، مہذب اور مہمان نواز ہیں۔

وادی کھوت پر بیسئوں صفحات لکھی جاسکتی ہیں لیکن ہمارا مقصد صرف سیاحتی پہلو کواجاگر کرنا ہے اور یہ پوسٹ فیس بک کےلئے لکھی جارہی ہے تو اس مضمون کو ہم مختصر سے مختصر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ فیس بکی دوست، جنہیں کم پڑھنے کی عادت ہوتی ہے،کہیں اُکتا نہ جائیں۔

کھوت تک رسائی کےلئے پیدل چلنے والوں کے لئے، کئی راستے ہیں لیکن گاڑی کا راستہ بونی بوزند روڈ ہے۔ بوزوند کے مقام پر سیدھے ہاتھ اوپر کی طرف مُڑنا ہوتا ہے جو ابتدا میں چڑھائی کی وجہ سے دشوار ہے لیکن رابت سے آگے میدانی علاقے میں داخل ہوجاتا ہے۔

سیاحت کے حوالے سے کھوت میں سب سے پہلی اور اہم چیز گیسوئے مبارک کی زیارت ہے جو اس علاقے میں گیسو کے مقام پر سرِراہ موجود ہے۔ شائد،برصغیرو پاک و ہند میں دو ہی موئے یا گیسوئے مبارک لائے گئے۔ ان میں سے ایک کشمیر میں حضرت بل کے مقام پر ہے اور دوسرا شائد کھوت میں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جامع مسجد گیسو ہے جس کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ قدیم زمانے میں گُھڑ سواریہاں احتراماً گھوڑے سے اتر جاتے تھے اور ماضی قریب تک گاڑی والے بھی، یہاں سے گزرتے ہوئے موسیقی بند کردیتے تھے اورادب کا مظاہرہ کرتے تھے۔اب مجھے نہیں معلوم کہ اُس ادب و احترام کا سلسلہ جاری ہے یا نہیں۔ اُس زمانے میں یہاں جو سفیدے کے درخت لگائے گئی تھے، اب تک کسی نے، ایک شاخ کاٹنے کی بھی جسارت نہیں کیں اور یوں یہ درخت اتنے تن آور ہیں کہ ان کو دیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سیاح یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی مقام پر پاکستان آرمی کے ایک ہیلی کاپٹر کا ڈھانچہ بھی موجود ہے جو اس علاقے میں ایک نایاب اور فوٹو شوٹرز کےلئےدلچسپی کی چیز ہے۔

کھوت میں سیاحوں کےلئے دوسری بڑی چیز را ژوئے ( نہر) ہے۔ یہ بہت بڑا جامع نہری نظام ہے جوکوئی بیس کلو میٹر تک، مختلف اطراف میں، فصلوں، اشجار اور دوسرے ذی روحوں کو پانی جیسی نعمت سے نواز رہا ہے۔ اس نہر کو چلانے کا قدیمی نظام اور دستور تا اندم ھٰذا جاری و ساری ہے۔ یہ نہر کھوت، اجنو، زنگلشٹ، بوزوند، شوتخار سے شاہگرام تک زمینوں کو سیراب کررہا ہے۔ سیاح اس نہر کے ساتھ بیس کلومیٹرتک مختلف دیہات میں ٹریکنگ کرسکتے ہیں۔ اس ٹریکنگ کے دوران مختلف جگہوں پر کیمپنگ بھی کی جاسکتی ہے۔

کھوت میں سیاحوں کیلئے ایک اور پر کشش جگہ، گرمائی چراگاہ شیاق لشٹ ہے۔ یہاں ہر سال میں دودفعہ(غار نسیک، غار خومیک) کی تقریبات ہوتی ہیں ۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ انتہائی خوبصورت جگہ ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ گاڑی یہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ کھوت کے نوجوان اس علاقے کو منظرعام پرلاکر،علاقے میں مثبت سرگرمیاں پیدا کرسکتے ہیں۔

کھوت میں پانی وافر مقدار میں موجود ہونے کی وجہ سے پورا علاقہ لہلہاتا رہتا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ کیمپنگ سائڈ موجود ہیں۔ سیاحوں کے لئے امن و امان کا کوئی مسلہ درپیش نہیں۔ کسی تکلیف کی صورت میں پولیس چوکی اور دیہی صحت مرکز موجود ہے۔ خرید وٖفروخت کیلئے بازاردستیاب ہے۔

مہم جووں کے لئے ایک اور دلچسپ روٹ کھوت سے یارخون کا ہے۔ کھوت، پھور کھوت سے ہوتا ہوا ایک راستہ یارخون تک جاتا ہے جو بہت بڑا ایڈونچر ہے اور ٹریکراس کا بھر پورمزہ لے سکتے ہیں۔ دوسرا دلچسپ ٹریک کھوت تا ریچ ہو سکتا ہے جو کھوت، اجنو کے بالائی چراگاہوں سے ہوتا ہوا ریچ تک جاتا ہے جو وادئی تورکھو کا ایک خوبصورت آخری گاوں ہے،جہاں سے آگے وخان کی پٹی شروع ہوجاتی ہے۔ (اس پر پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا)

کھوت میں سیاحت کو فروغ دینے کےلئے دوچیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ ان میں سے پہلی چیز تورکھو بونی روڈ کی بروقت تکمیل ہے۔ جب تک یہ مسلہ حل نہیں ہوتا، تب تک صرف مہم جو سیاح ہی آئیں گے جن کی تعداد سیاحوں میں سب سے کم ہوتی ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد سیر کے ساتھ ساتھ سہولیات بھی مانگتی ہے اور ان علاقوں میں سہیولیات کا فقدان ہے۔ سیاحوں کیلئے قیام وطعام کا بندوبست ہونا ضروری ہے لیکن ان علاقوں میں لوگ کاروباری نہ ہونے کی وجہ سے یہ سہولیات ناپید ہیں۔ اہلیاں کھوت کی توجہ اور فائدے کےلئے میں چین کے علاقے ہونٹانگ میں موجود تجارتی بستی کا آنکھوں دیکھا حال بتانا چاہوں گا۔ چین کی حکومت، ان قدیمی دیہات کو محفوظ کرکے ایک کاروباری پلان دے چکی ہے۔ پلان کے تحت ان لوگوں نے اپنے گھروں اور مہمان خانون کو ہوٹل بنارکھا ہے۔ سیاح آتے ہیں، گاوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور ان گھر نما ہوٹل سے کھانا پینا کرتے ہیں۔ ہم کم ازکم اپنی انگوٹی (مہمان خانہ) کو عارضی ہوٹلز میں تبدیل کرکے سیاحوں کو یہ سہولت مہیا کرسکتے ہیں اوربیٹھے بیٹھائے منافع کما سکتے ہیں۔

قدیم لوک گیت "ڈوک یخدیز” کا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ کسی زمانے میں دو محبت بھرے دلوں کی شادی طئے ہوتی ہے اور رخصتی قریب تھی کہ اچانک دلہا میاں کو سرکار کی طرف سے کسی کام کے سلسلے میں ویرشگوم گلگت بھجوادیا جاتا ہے۔ وہاں جانے کے بعد یہ نوجوان ایک موزی مرض کا شکار ہوکرکافی وقت تک لا پتہ ہوجاتا ہے۔ لڑکی کی منگنی کسی اور کے ساتھ کرکے رخصتی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن لڑکی، اپنے محبوب اور پچھلے منگیتر کی راہ تکتی رہتی ہے جو آخرکار اسے مل جاتا ہے۔ گیت کا ایک بول کچھ اس طرح ہے،

شا کومئیت استور ڈوک شوڑا تو چوکیت

استور لالو استور ہے سورو موش کوکا

میں اپنی زندگی میں ایک دفعہ غالباً 1983-84 میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کےلئے کھوت گیا ہوا تھا اور یہ جولائی کا مہینہ تھا۔ اس کے بعد تا اندام ھٰذا کھوت جانا نصیب نہ ہوسکا اور نہ کسی نے بلایا۔ بچپن کی یادیں اب تک ذہن میں زندہ ہیں جواس تحریر کے محرک بنے۔ کھوت، باالخصوص تورکھو اور باالعموم چترال کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے اوراس پر سینکڑوں اوراق لکھے جاسکتے ہیں لیکن اس کالم کا مقصد سیاحت ہے، اس لئے مختصر اورمقصد تک مُقئید ہے۔ اگر کوئی چیز اس میں رہ گئی ہے توکھوت کےمیرے دوست اپنے کمنٹس میں ان کو پورا کرکے اس مقصد کو پورا کریں اور اچھی اچھی تصاویر بھی، تاثرات (کمنٹس) کے ساتھ لف کریں تو مزہ دوبالا ہوجائے گا۔ شکریہ۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button