سیاست

کیا غلط کیا صحیح

سید ابوالحکم جان

پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں کچھ ایسے حقائق ھیں جنکا ھر پاکستانی نے تجربہ کیا اور لوگوں کی غالبا اکثریت ان کو تسلیم بھی کرےگی اگر کچھ لوگ ذاتی پسند و نا پسند یا وابستگی اور ناوابستگی کی بنیاد پر تسلیم نہ کریں توالگ بات ہے                     

۱- سیاست دانوں کی آپس میں دست و گر یبان ھونے کی کیفیت نے  ھمیشہ فوجی مداخلت کے لئے راہ ھموار کی ھے بالفاظِ دیگر یہ سیاست دان ہی ھیں جو ھر وقت فوجی مداخلت کے لئے ماحول بناتے رھے ھیں                                                               

 ۲- سیاست دانوں کی اس ناعاقبت اندیشی کے باوجود بھی پاک فوج کو ناصح اور صالح کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا اور سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

۳-اس سے ملک کا سیاسی استحکام بہت دور چلا گیا جو با لآخر کسی نہ کسی مرحلے پر حاصل ھو جاتا اگر مداخلت نہ ھوتی تو بہت سارے شاھکار ترقیاتی کام مثلا دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی اور تعمیر، منگلا،تربیلا اور وارسک ڈیم ایوب کی حکومت کا طرہ امتیاز تھا جو خود ڈکٹیٹر تھے

۴-بھٹو عظیم رھنما تھے ایسے قائد قوموں کی تاریخ میں صدیوں بعد پیدا ھوتے ہیں ھماری بد قسمتی تھی کہ ایسے عظیم رھنما پھانسی چڑھ گئے۔ 

۵- ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی چڑھا کر تاریخ کی بہت بڑی غلطی کی لوگ کہتے ھیں کہ افغانستان کی جنگ میں کودنا بھی ضیالحق کی غلطی تھی ۔            

۶-نواز شریف کا اپنے ایک قابل جرنیل کو ھوا میں عہدے سے ہٹانے کی کوشش کرنا بہت بڑی غلطی تھی 

۷- پیپلز پارٹی کی قیادت بینظیر کے بعد اگر بھٹو خاندان کے کسی فرد یا پرانے جیالوں یعنی اعتزاز احسن وغیرہ میں سے کسی کے پاس جاتی تو آج اس کا یہ حشر نہ ھوتا۔ آج بھی اگر فاطمہ بھٹو  پیپلز پارٹی کی قیادت سمبھالیں تو حالات بدل سکتی ھیں  

 ۸-پچھلے ادوار میں ( دباؤ کی وجہ سے شاید) ھماری عدالتیں سمجھوتہ کرتی رہی ھیں اس کے باوجود  اب بھی یہ عدالتں ھی ھیں جو پاکستان کو صحیح راستے پر ڈال سکتی ھیں اگر کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہ ہوئیں تو –                                       

۱۰- ترقی پزیر ممالک میں کرپشن ھوتی ہے لیکن پاکستان میں جو کچھ ھوتا ھے یہ تو کھلا لوٹ مار ھے 

۱۱- پاکستان میں لوگ عوام کی خد مت کے لئے نہیں بلکہ اس لوٹ ماری کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرکے سیاست میں آتے ھیں حالانکہ الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن لڑنے کا خرچ 15 ، 20 لاکھ سے زیادہ نہیی ھونا چاہئے صاف ظاھر ھے کہ الیکشن ان موروثی سیاست دانوں کے ہاتھوں جوا کا کھیل بن چکا ھےجو کروڑوں روپے الیکشن پر صرف اس لئے  لگاتے ھیں کہ اگر جیت گئی تو ہر جائز و نا جائز ذرائع سے دس گنا کرکے واپس لئے جائیں گے نہیں تو ان کو اتنا فرق نہیں پڑتا صرف یہی ان کا موٹو ھے – 

۱۲-الیکشن کمیشن کا امید واروں کے انتخابی اخراجات پر کوئی چک نہیں ھے –                       

۱۳- اخراجات کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس لیے عام طبقے سے کوئی بھی الیکشن نہیں لڑ سکتا باوجود یکہ ان میں ان کرپٹ سیاست دانوں سے زیادہ  قا بل لوگ موجود ہیں  

۱۴- یہ  پہلا موقع ھے کہ تحریک انصاف کے منتخب اراکین کی خاصی تعداد متو سط طبقے سے تعلق رکھتی ھے وگرنہ اس سے پہلے سیاست چند گھرانوں کی لونڈی رہی ھے جو یا تو جاگیر دار اور سرمایہ دار ہیں یا ان کے پاس کرپشن کا بہت بڑا پیسہ ھے جیسے کہ نوازشریف، زارداری، یوسف رضا گیلاںی، مراد علی شاہ وغیرہ بہت سے لوگ جن کے گھرانوں کی بہو بیٹیاں بھی پیسے کے بل بوتے پر  جتتی رہتی ھیں. ۱۵-یسی جمھوریت لنگڑی لولی جمھوریت کہلاتی ھے –

۱۶- اگر کچھ سیاست دان یہ سمجھتے ھیں کہ اسٹبلشمنٹ سیا ست میں مداخلت کرتی ھے تو اس کے زمےدار وہ خود ھیں جو ضیاء الحق کے مارشل لا کو نام نہاد نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دئیے تھے کم از کم بھٹو کی پھانسی کی تو مذمت کرتے جو کہ ان کا ہی پیٹی بند تھا اور کل کو ایسا واقعہ خود ان کے ساتھ بھی پیش آسکتا تھا اس طرح جو کام آج غلط سمجھا جاتا ھے وہ اس وقت بھی غلط تھا اور غلط کام کا ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سب کو مل کر مقابلہ کرنا چاہیے تھا تب کہیں جا کر غلط کام کو روکا جاسکتا تھا-                                                 ۱۷-ایسا نہیں ہو سکتا اسی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اپنے حصے کا اقتدار کا مزہ لوٹنے کے بعد اگر کسی وجہ سے تخت اقتدار سے اترنا پڑے تب اسٹبلشمنٹ کی مداخلت بھی نظر آجاے اور بھٹو کی پھانسی بھی غلط دکھائی دے ۔

۱۸- نواز شریف کے کئے ھوے کاموں میں موٹر وے ایک شاہکار اور لینڈ مارک ھےگرچہ کہ اس کے تینوں ادوار میں اور کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ھوے –

۱۹- یہ جانتے ھوے بھی کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ بلکہ ام ا لمسائل اس کی بے ہنگم بڑھتی ھوئی ابادی ھے مقتدر حلقوں میں سےکسی نے بھی اب تک اس کو روکنے کی طرف توجہ نہیں دی ایسے میں غربت ختم کرنے کا ان میں سے ہر ایک کا نعرہ سفید جھوٹ ھے –                                                         ۲۰-وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور مخلص انسان ہیں اور کرپشن کو کم کرنے کی مخلصانہ کوشش میں مصروف ہیں- ظاھر ھے کہ 74 سال سے کرپشن زدہ ملک سے اس لغنت کو یکسر اور بیک جنبش قلم ختم کرنا آسان نہیں اس میں تھوڑا وقت اور لگےگا –  

۲۱- مہنگائی کے طوفان نے حکومت وقت کو غیر مقبول کر دیا ھے حالانکہ کووڈ کی وجہ سے مہنگائی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ھوے ھے تنقید کرنے والوں میں سے بھی کوئی مائی کا لال ان حالات میں اگر ان کو موقع ملے تو اس کو کم نہیں کر سکتا لیکن اس بات کو عام آدمی سمجھنے سے قاصر ھے اس لئے ان کا تنقید کرنے والوں کے بہکاوے میں آنا قدرتی بات ھے –   

۲۲- پی ایم عمران خان کی ذاتی دیانت داری اور شفافیت تو شک و شبہے سے بالا تر ھے جبکہ اس کی کابینہ کے دیگر  ارکان پر بھی ابھی تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا ھے اس سے اندازہ ھوتا ھے کہ یہی ٹولہ شاید پاکستان کی کشتی کو کرپشن  کے سمندر سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاے اگر اگلی الیکشن میں عوام ساتھ دیں تو- بصورت دیگر  مستقبل قریب میں ووٹر عوام کی زندگیاں انتہائی مشکل ہو جائین گی- 

۲۳-یہ کہ یہ سیاسی جماعتیں اگر پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں تو آپس کے ماضی کی کرپشن اور دیگر معاندانہ رویوں کی مالی اور اخلاقی حوالوں سے تلافی کرکے قومی مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا ئن اور تعصب اور مفاد پرستی سے بالا تر ہو کر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا شروع کرین تو کسی کو کبھی بھی کوئی مداخلت کر نے کی جراءت نہیں ہو گی- 

۲۴- یہ کہ گزشتہ 50 سالوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ھے کہ پارلیمانی نظام حکومت پاکستان میں کامیاب نہیں ھے

Advertisement
Back to top button