تاریخ اور ادبتعلیمسماجیکالم نگار

تالیاں بجانا جرم ہے۔

مراد اکبر

وہ بھی کیا دن تھے جب بدنام زمانہ این جی اوز کی بے شرم خواتین کارندے چھٹی کے بعد سبزی والے کے پاس گاڑی رکواکر گھر کیلئے بھنڈی اور اپنے بچوں کیلئے پھل خریدنے جیسی بے ہودہ حرکت کرتیں۔ اگلے جمعے کا خطبہ پورے کا پورا ان کی شان میں پڑھا جاتا۔ پہاڑوں میں گھرے اس ضلع کے طول و عرض میں مبینہ بے حیائی کی ذمہ دار وہ خواتین ٹھہرتیں۔ اسلام کو جو خطرہ ان خواتین سے تھا شایدہی کمیونزم سے تھا اور نہ ہی ہندوستان سے۔ ظاہر ہے اس وقت امریکہ افغان جہاد میں ہمارا دوست تھا، اس لئے ان کی طرف سے تو ایسی قبیح حرکت کی توقع ہرگز نہیں تھی۔

ان دنوں بازارسے کسی خاتون کا پیدل گزرنا ایسے ہی تھا جیسے خشکی میں مچھلی کا انا۔ گاہے بگاہے کسی فرنگی سیاح کا گزر ہوتا تو ہمارے جیسوں کی باچھیں کھل جاتیں اور رالیں ٹپک جاتیں جن کو صاف کرنے کا خیال ہمیں نے شرم فرنگی کے جانے کے کافی دیر بعد اتا۔ اس منظر سے حظ اٹھانے والے ہم اکیلے نہیں تھے، بلکہ اس گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں بہت سے پردہ نشین بھی شامل ہوتے۔ ان کی رالیں ہم سے زیادہ ٹپکتیں۔ کچھ عاشق مزاج پردہ نشین ادھ ننگے میم کو دیکھ کے دل ہی دل میں "صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے اتے بھی نہیں” گنگناتے، ساتھ تسبیح کے دانے اور تیزی سے گراتے تاکہ رند کے رند رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔

وہ سنہرا دور کوئی کیسے بھول سکتا ہے جب شوہران گھر والیوں کیلئے عید کے کپڑے خریدا کرتے جسے بیویاں من و عن پسند کرتیں اور عید کے دن خوشی خوشی پہنتیں۔ کیا مجال کہ کہ کوئی بیوی یا بہن گھر کے مرد کے سامنے خود بازار جاکر اپنے پسند کے کپڑے خریدنے کی غیر شرعی فرمائش کرتی۔

ماہ و سال گزر گئے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا، بلکہ کئی تو سیلابی ریلے بھی گزر گئے۔ گماں تو یہ ہے انہی سیلابی ریلوں میں ہماری غیرت اور شریعت کے تقاضے بھی بہہ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک یخ بستہ صبح جب ہم سارے انکھ ملتے ہوئے لمبی سرمائی نیند سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ اسی بازار ممنوعہ سے جوق در جوق جوان لڑکیاں پیدل اسکول اور کالج اور پھر یونیورسٹی جانے لگیں۔ ہسپتال جانے والیوں کا تانتا بندھ گیا۔ فیشن جو کبھی کھلے قمیض اور اسی رنگ کے پاجامے سے شروع ہوکر کالے بوٹ پر ختم ہوا کرتا تھا، پٹیالہ شلوار سے ہوتا ہوا اسکن ٹائیٹ کی منزل کو پالیا۔ عورتوںکی الگ دکانیں اور پھر پورے کے پورے بازار کھل گئے ۔ اندر عورتیں نامحرم دکانداروں سے بھاؤ تاؤ کررہی ہیں او شوہر باہر گاڑی میں انتظار فرمارہے ہیں۔ چونکہ ماحول مست ہے، اس لئے واٹس ایپ پہ Feeling Cool کا گرما گرم اسٹیٹس لگاتے ہیں اور تاڑنے کا عمل وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔

چشم فلک نے دیکھا کہ تیس سال کے عرصے میں سبزی خریدنے کا انتہائی بے حیائی والا عمل عین شرعی بن چکا تھا۔ خواتین کا دفتروں میں کام کرنے جیسا قبیح کام غیر اسلامی سے” مکمل جائز”کا سفر طے کر چکا تھا، ٹی وی حرام سے حلال کے زینے چڑھ چکا تھا اور معلوم نہیں اور کیا کچھ حرام تھا۔۔۔۔۔حلال کا درجہ پاچکا تھا۔

تو جناب ۔ ہر کام کا مناسب وقت ہوتا ہے ۔ وہ سب کچھ جس پہ واویلا مچا ہواہے ایک دن حرام سے حلال کا سفر طے کرے گا۔ اور بقول شاعر ہم ” مطمئن ایسے ہوں گے جیسے ہوا کچھ بھی نہیں”۔ اس دوران کچھ نے اپنی فرسٹریشن نکالنی ہے، کچھ نے خوف پھیلانا ہے، کچھ نے اپنی کارکردگی چھپانی ہے اور کچھ نے جلتی میں تیل ڈالنا ہے۔

سردی کافی ہے، نیند بھی ارہی ہے۔ میں سرمائی نیند سونے جارہا ہوں۔ جب بیدار ہوں گے تو ملاقٓات ہوگی۔ تب تک موسیقی اور عورتوں کی تالیاں بجانے پر پابندی ہوگی۔ اس دوران بیٹیوں کی مالدار پنجابیوں کے ساتھ شادی کی مکمل ازادی ہوگی۔

Advertisement
Back to top button