کالم نگار

دوستو میرا بیٹا دوسال سے اوپر کا ہوگیا ہے

ہر باپ کی طرح میں بھی اپنی ذمہ داری ٹھیک سے پوری کرنے کے بارے فکرمند ہوں۔ میرے سامنے میری اپنی زندگی کے تجربات ہیں۔ کچھ تلخ، کچھ شیرین،کچھ کامیابیاں اور بہت ساری ناکامیاں

 

مراد اکبر

دوستو میرا بیٹا دوسال سے اوپر کا ہوگیا ہے۔ ہر باپ کی طرح میں بھی اپنی ذمہ داری ٹھیک سے پوری کرنے کے بارے فکرمند ہوں۔ میرے سامنے
میری اپنی زندگی کے تجربات ہیں۔ کچھ تلخ، کچھ شیرین،کچھ کامیابیاں اور بہت ساری ناکامیاں۔ میرا خیال ہے بحیثیت انسان اپنے تجربات سے سیکھنا اور ان کو کام میں لانا ضروری ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ اصطلاحات کے معنی اور مطالب پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا خوشی، کامیاب انسان، ناکام انسان، بڑا ادمی، چھوٹا ادمی، نیک ادمی، تابعدار بیٹا/بیٹی، باغی، خودسر، پڑھا لکھ/تعلیم یافتہ ،عالم، جاہل، قابل، نالائق، ترقی، علم، شعور وغیرہ۔ کم از کم میں تو ان سب سمیت اور بہت ساری اصطلاحات کے بارے اپنی سوچ پر مذید سوچنےکیلئے تیار ہوں۔ اولاد کے مستقبل کے حوالہ سے میری سوچ اور خیالات باغیانہ اور منصوبے روایات سے کافی ہٹ کر ہیں، کیوں کہ میں نے زندگی کے کم از کم سولہ سال "تعلیم”کے حصول اور کچھ کم دو دہائیاں فکر معاش میں گزارے ہیں۔ سولہ سالہ تعلیم کا حاصل یہ تھا کہ میرے مادر علمی نے عملی زندگی میں کام آنے والے کسی ہنر سے مجھے لیس نہیں کیا تھا۔ بلکہ میری مثال اس انسان کی تھی جس کو لائف جیکٹ کے بغیردریا کے بے رحم موجوں کے حوالہ کردیاجائے۔ ایسے میں ظاہر ہے ہر کوئی ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ کچھ کے نصیب میں بچنا ہوتا ہے اور کچھ کی قسمت میں ڈوبنا اور کچھ تو زندگی بھرکناروں تک پہنچنے کی کوشش میں تنکے کے سہارے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ میں بھی سالوں سے تنکوں کے سہارے کنارے کی تلاش میں ہوں۔ لیکن کیا میں اپنے بچے کو بھی اسی راستے پر چھوڑ دوں جو کسی منزل کی طرف نہیں جاتا۔
بے شک آج کے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم کا "معیار” بیس سال پہلے کی نسبت کافی بہتر ہے۔ لیکن اگر”معیار” کو معیار کے درست معنوں میں پرکھا جائے، مالی انویسمنٹ اور وقت کے تقاضوں کا موازنہ ایک گریجویٹ کی قابلیت، استعداد اور ہنر سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اگر درمیانے درجے کے تعلیمی ادارے میں ڈالا جائے تو آٹھارہ سال کی تعلیم پوری کرتے کرتے بچے پر اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں کا خرچہ ضرور آتا ہے۔ بدلے میں ہمارے ہاتھ وہ نوجوان اتا ہے جو زمینداری اور کاروبار کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ سترہ گریڈ سے نیچے کی نوکری وہ نوکری نہیں بلکہ بے عزتی گردانتا ہے۔ جب تک عقل ٹھکانے آجاتی ہے اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ دوسری طرف والدین”اچھی نوکری” کیلئے "تعلیم یافتہ” اولاد پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ رشتہ داروں اور دوستوں کا پریشرالگ ہوتا ہے ۔کچھ سال بعد اچھی نوکری کی تعریف گریڈ سترہ سے کھسک کر کلاس فور تک آجاتی ہے۔ اور کلاس فور”منتخب” ہونا بھی کوئی کھیل نہیں ہے۔ آگ کے دریا سے گزرکر ہی ایک کلاس فور کا جنم ہوتا ہے۔
جب تک ہمارے تعلیمی ادارے جدید دورکی مارکیٹ کی ضروریات کے حساب سے طالب علموں کی تربیت کرنا شروع نہ کریں اس وقت تک میرا خیال ہے کہ اپنا سرمایہ اور بچے کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ آج کا دور ہنر اور صلاحیت کا ہے۔ آپ کے پاس معلومات کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اپ لکھنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہوں، بہت اچھے ائیڈیاز ہوں لیکن ائیڈیاز کو الفاظ کا پیرہن پہنانے کا ہنر نہ ہو، سرمایہ ہو لیکن اس کے اچھے استعمال کے طریقوں سے نابلد ہوں، سماج میں رہتے ہوئے مثبت سماجی رویوں سے دور ہوں، کمپیوٹراور انٹر نیٹ تک رسائی ہو لیکن ضروری سافٹ وئیرچلانا نہ اتا ہو، انگش میں ماسٹرز کرکے انگش بولنا نہ اتا ہو اور مادری زبان ہوتے ہوئے بھی اردو میں سو تک گنتی نہ اتی ہو تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ، ایسی ڈگری کا کیا کرنا۔ مسئلہ یہ ہے کہ مہنگے اسکول یا کالج بھی گریجویٹ ہی پیدا کررہے ہیں تعلیم یافتہ نہیں۔ اس پر میرا یقین اور بھی پختہ ہوگیا جب "کنولی ریسٹورنٹ” کی” انگلش بولنے والی” مالک خواتین نے اپنے ریسٹورنٹ منیجر کی سرعام بے عزتی کی۔ اب ایسے میں بندہ جائے تو کہاں جائے۔ سستے اسکول میں تعلیم نہیں اور مہنگے اسکول میں تربیت اور بہت سارے اسکولوں میں تو دونوں ہی ناپید ہیں،بس فیس وصولی ہے۔
جس طرح میں نے شروع میں لکھا تھا کہ کچھ اصطلاحات کے مطالب پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تعلیم کا حصول آج کے دور میں صرف "تعلیمی اداروں” سے ہی ممکن نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں اور روایتی تعلیمی اداروں سے کہیں اچھے ہیں۔ مثلا کورونا کےدواران پورا تعلیمی نظام آن لائن ہوگیا۔ دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیز نے ان لائن کورسز آفر کیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس طریقے کو اپنایا جاسکتا ہے۔ میں تو کم از کم یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہوں۔ ای سی ڈی کیلئے بچے کو اسکول میں ڈالنا میری مجبوری ہے۔ اس کے بعد شاید میں روایتی اسکول سسٹم کو الوداع کہہ کر اپنے بچے کو ان لائن اور ہوم اسکولنگ میں ڈالنا چاہوں گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ کام کافی مشکل ہے۔ لیکن میرے ذہن میں جو خاکہ ہے وہ یہ کہ بچے کو صرف ضروری مضامین پڑھائے جائیں گے جیسا کہ اردو، انگریزی بولنا، پڑھنا اور لکھنا، کوئی بھی دوسری اضافی زبان اورشاید ریاضی اور سائنس۔ ساتھ ساتھ بچے سے اس کا بچپن نہیں چھینا جائے گا۔ اس کے پاس کھیل کود اور شرارت کا بھر پور وقت ہوگا۔ مختلف لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اپنی تاریخ اور ثقافت کی بنیادی اجزاء سے بچے کو روشناس کرایا جائے گا۔ خلق خدا کی خدمت اور احترام کا درس دیا جائے گا اور مذہبی تعلیم کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے گا کہ طوطے کی طرح نہیں بلکہ دین کو سمجھ کر اس پر عمل بھی کیا جائے۔ نیچر سے بچے کا رابطہ اس طریقے سے استوار کیا جائے گا کہ دریا، پہاڑ، پودے، پھول، پھل، پرند اور چرند کیلئے نقصان کا سبب نہ بنے بلکہ ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بچے کو یہ بتایا جائے گا کہ کامیابی اچھی نوکری یا بہت پیسے کمانے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں اپنے حصے کا چھوٹا سا کام بہتر طریقے سے کرنے کا نام ہے۔
درحقیقت میں اپنے بچے کو ایک نارمل انسان بنانا چاہتا ہوں، پیسہ بنانے کی مشین نہیں۔ مجھے معلوم ہے اس راہ میں بہت ساری مشکلات آنے والی ہیں۔ لیکن اس حوالہ سے اپ سب دوستوں اور خاص کرکے ان خواتین و حضرات کی راہنمائی درکار ہے جو تعلیم کے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں۔
Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button