کالم نگار

کتاب کی مہک ابھی باقی ہے

عنایت شمسی

جہات

سعود عثمانی صاحب اس عہد کے با کمال شاعر ہیں، وہ صرف شاعر ہی کمال کے نہیں، ان کی نثر بھی ”حد” ، بلکہ اس سے بھی آگے کی شئے، یعنی ”بے حد” قسم کی ہوتی ہے۔ ان کے شعروں کی طرح ان کی غیر شعری تحریر بھی ایسی ملائم اورلوچدار ہوتی ہے کہ پڑھتے ہوئے شعروں کی سی روانی پڑھنے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے، یوں سمجھ لیں وہ نثر میں بھی شاعری کے دھنک رنگ بکھیر دیتے ہیں۔ وہی تخیل کی بلندی، مضامینِ نو اور نوع بنوع کا انبار اور وہی عبارت کی دلنشینی، بیانئے کا رسوخ، پیرایہ اظہار و ابلاغ کا شکوہ، قوت تاثیر اور بہت کچھ۔ سعود صاحب ایک علمی اور دینی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں، چنانچہ علم و فن کا حظ وافر انہیں گھٹی میں ہی ملا ہے۔ ادیب کا عمومی اطلاق نثر و شعر لکھنے والے ہر دو پر ہوتا ہے، مگر ایسے ادیب کم ہی پائے جاتے ہیں، جو نثر و شعر دونوں پر یکساں عبور اور دستگاہ رکھتے ہوں، گویا دونوں ہاتھوں سے لکھتے ہوں۔ سعود عثمانی صاحب ایسے ہی چیدہ چنیدہ صاحبان فن میں سے ہیں۔ قلم، کتاب، نثر، شعر سعود صاحب کا اوڑھنا بچھونا یعنی سبھی کچھ ہیں۔ ان کی زندگی کے شب و روز انہی چیزوں کے گرد گزرتے ہیں اور یہی چیزیں ان کی فکر بہ معنی فکر مندی اور فکر بہ معنی سوچ کا بھی مرکز و محور ہیں۔ وہ یہی چیزیں سوچتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ انہی چیزوں کیلئے بھی سوچتے ہیں۔ ایسی ہی کسی فکر مندانہ کیفیت میں جانے کس گھڑی انہوں نے درد سے کہا تھا اور کیا ہی کہا تھا کہ
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

شاعر و ادیب سماج کے نباض اور اس کے فکری و نظری رہنما بلکہ صاحب یوں کہئے کہ قطب نما ہوتے ہیں، وہ اپنے تخیل کے پروں سے اڑان بھر کر کبھی دُور ماضی کے عہد میں جا اترتے ہیں اور کھوج کرید کر حالات کا آئینہ عہدِ موجود کے حال مست انسانوں کے سامنے دھر دیتے ہیں اور کبھی ان کی فکرِ رسا کا شہپر مستقبل کے خد و خال کو دامِ خیال میں باندھ کر بڑی وضاحت اور صفائی کے ساتھ پڑھنے والوں کے سامنیپیش کر دیتا ہے، یہی نہیں، سوسائٹی کے ہر زشت و خوب کو بھی یہی ادیب و شاعر اجاگر کرتے ہیں اور اس تمام تر مساعی کا مقصد ان کے پیش نظر اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ سوسائٹی اپنا حال کی ادائیں درست کرکے مناسب اور مطلوبہ تیاریوں کے ساتھ مستقبل کا استقبال کرے۔ سعود صاحب نے اس شعر میں خبر دار کیا ہے کہ کتاب کی زندگی لب بام آچکی ہے۔ اس انتباہ کی دو جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ذوقِ کتب بینی خطرے میں ہے، دوسری جہت یہ کہ کتاب بہ معنی کاغذی نسخہ اپنے وجود کی آخری صدی کو آن لگا ہے۔ دیکھا جائے تو آج کے ڈیجیٹل اور تیز رفتار مشینی عہد نے دونوں جہتوں سے کتاب کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ معاملہ وہی کلہاڑی اور لکڑی والا ہے۔ کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹی جاتی ہیں، مگر اس کیلئے بھی کلہاڑی میں تیز دھار والے لوہے کے ساتھ چوبی دستے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکڑی کے دستے کا ساتھ نہ ہو تو اکیلے لوہے میں دم نہیں کہ لکڑیوں کے کشتوں کے پشتے لگائے۔ یہی کچھ آج کتاب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے، جس کی پیش گوئی بلکہ منظر کشی سعود صاحب نے کی ہے۔ آج کتاب کی زندگی جس خطرے کی زد میں ہے، وہ اسی کتاب کا ہی آوردہ اور مرہون منت تو ہے۔ ای بادِ صبا این ہمہ آوردۂ تست… کتاب نہ ہوتی تو آج دنیا اس حیرت انگیز ڈیجیٹل عہد اور تمدنی ارتقا کے دور عروج کا منہ دیکھ پاتی؟ ہرگز نہیں، مگر انسان کو ارتقا کی اس منزل پر پہنچا کر خود کتاب اب بوڑھی ہو چکی ہے اور اس کے قوائے عمل میں دھیرے دھیرے اضمحلال کا زہر پھیلتا جا رہا ہے، کاغذ کی مہک تو خاصی روٹھ چکی ہے، اب یہ مہیب اور روح فرسا خطرہ بھی حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ ذوقِ کتاب بینی بھی کوئی وقت جاتا ہے کہ ”کتاب اینجا رسید و سر بہ شکست” کی منزل کو آن لگے…

مگر رکیے، ابھی امید کے چند دیے روشن ہیں، علامہ عبد الستار عاصم جیسے کتاب سے محبت کرنے والے اور خود جناب سعود عثمانی جیسے اہل ذوق و صاحبانِ فکر و نظر کتاب کی طباعت، نشر، اشاعت اور تقسیم کے اہتمام، انتظام اور خدمت سے منسلک ہوں اور اس کام کو انسانی و سماجی فرض سمجھ کر انجام دیتے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ کتاب کے مستقبل کے متعلق دل میں اطمینان اور تحفظ کا احساس پیدا نہ ہو۔ علامہ صاحب جیسے پبلشرز کے ہوتے ہوئے ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ کاغذ و کتاب کی مہک، اس کا نشہ، اس کا لطیف احساس، اس کی قوت تاثیر، اس کی بالیدگی، روئیدگی اور زندگی ہماری زندگیوں میں تو کم از کم فنا کے خطرے سے مامون اور محفوظ رہے گی۔ گزشتہ دنوں اخبارات اور فیس بک پر کچھ اہل قلم کی طرف سے گزرے عہد کی ایک بزرگ ہستی مولانا گلزار احمد مظاہری کے حالات زندگی پر مشتمل کتاب کا چرچا سنا تو ہمارا دل بھی اشتیاقِ دید کے جذبۂ بیتاب سے بلیوں اچھلنے لگا۔ مولانا گلزار احمد مظاہری دار العلوم مظاہر العلوم سہارنپور کے ممتاز فاضل اور عظیم داعی ہوئے ہیں۔ وہ ایک متمول تاجر گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ والد نے انہیں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں داخل کروایا، مگر ان کی طبعیت وہاں نہ جمی، چنانچہ علیگڑھ سے جلد ہی اٹھ کر مظاہر العلوم سہارنپور پہنچے۔ مظاہر العلوم کا ماحول انہیں ایسا خوش آیا کہ یہاں کے چشمۂ علم سے سیراب ہو کر ہی نکلے۔ عملی زندگی میں مختلف دینی و ملی تحریکات میں حصہ لیا۔ اکابر دیوبند سے قریبی ربط ضبط رہا، مگر اقامت دین کی عملی جد و جہد کے جذبے نے انہیں مولانا سید مودودی کے قافلے کا ہمرکاب بنا دیا اور پھر پوری زندگی انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے دینی، دعوتی، سیاسی، تحریکی جد و جہد میں گزاری۔ ممتاز صاحب قلم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ مولانا مظاہری کے صاحبزادگان ہیں، جبکہ یہ کتاب ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کے قلم کا اعجاز ہے۔

”مولانا گلزار احمد مظاہری… زندگانی۔ جیل کہانی” کا چرچا سن کر ہماری جستجو بڑھی۔ فیس بک پر سرچ کیا تو کتاب ”قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور” کی مطبوعہ نکلی۔ مزید تلاش کے بعد پبلشر کا نمبر حاصل کیا اور فوراً کتاب آرڈر کرنے کی غرض سے واٹس ایپ پر میسج کر دیا۔ چند لمحے گزرے تھے کہ اس نمبر سے کال موصول ہوئی۔ میں نے مدعا دہرایا تو یہ سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ دوسری طرف کوئی اور نہیں، خود اس قابل قدر اشاعتی ادارے کے سربراہ علامہ عبد الستار عاصم صاحب ہیں۔ علامہ صاحب سے غائبانہ تعارف ان کی دیگر مطبوعہ کتابوں، میڈیا پر آنے والی ان کی مثبت مذہبی و فکری سرگرمیوں اور کچھ مشترکہ دوستوں کی اچھی رپورٹیشن کے ذریعے پہلے ہی حاصل تھا۔ علامہ صاحب نے مدعا سنا اور یہ کہہ کر ہمیں ایک اور خوشکوار حیرت کے جھونکے کی بانہوں میں دھکیل دیا کہ یہ کتاب میری طرف سے آپ کیلئے ہدیہ ہوگی۔ کتاب موصول ہوئی تو اس کے ساتھ ممتاز دانشور اور پاکستانیات کے محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی تحریروں کا مجموعہ بھی علامہ صاحب کی محبت اور کتاب دوستی کے ثبوتِ مزید کے طور پر موجود تھا۔ پیکٹ کھول کر ایک ساتھ دو کتابیں دیکھ کر ہمیں جو خوشی ہوئی، بخدا ایسی خوشی کسی بھوکے کو ”چپڑی اور دو دو” ایک ساتھ ملنے پر بھی نہ ہوئی ہوگی۔ دونوں کتابیں اعلیٰ معیار پر چھپی ہیں۔ رہا ان کا مواد تو پہلی کتاب ایک قابل بیٹے کی اپنے عظیم والد کو خراج عقیدت ہے اور سطر سطر دل کے ہاتھوں سے رقم کی گئی ہے، کتاب میں مولانا مظاہری کی ذاتی زندگی کے احوال اور تعلیم و تعلم کے تذکروں سے لے کر سیاسی، دینی و تحریکی جدو جہد کے شب و روز تک، مولانا مرحوم کی پوری زندگی کو خوبصورت اور دلنشیں پیرائے میں سمویا گیا ہے، جبکہ دوسری کتاب کے مندرجات کے استناد کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے محقق کے رشحات فکر کا مجموعہ ہے اور دونوں کتابیں علامہ صاحب جیسے کتاب دوست پبلشر کی مخلصانہ کاوش سے منصہ شہود پر آئی ہیں۔ ان کا ادارہ لاہور میں قائم ہے، ادارے کا فیس بک پیج بھی موجود ہے، جس کے ذریعے ادارے کی مطبوعات کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ علامہ صاحب جیسے مخلص اور با ذوق پبلشر کا وجود بلا شبہ کاغذ کی مہک کی سلامتی کا ضامن ہے، اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں اضافہ کرے!

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button