اپر چترالسفر کہانیلاسپور

بشقار گول کی سیر. قسط نمبر 1

فصلوں کی آبپاشی گرہستی کے ان گنے چنے کاموں میں سرفہرست ہے جنہیں میں بصد خوشی انجام دیتا ہوں، مرجھائی ہوئی بالیوں اور پیاسے خوشوں کو سیراب کر کے میرے رگوں میں دوڑتا

ماجد علی

 

 

فصلوں کی آبپاشی گرہستی کے ان گنے چنے کاموں میں سرفہرست ہے جنہیں میں بصد خوشی انجام دیتا ہوں، مرجھائی ہوئی بالیوں اور پیاسے خوشوں کو سیراب کر کے میرے رگوں میں دوڑتا میرے آبا کا دہقانی خون ایک گونہ اطمینان حاصل کرتا ہے۔

اس دن (یکم جولائی 2020) بھی صبح تڑکے سے کھیتوں کی آبیاری میں منہمک تھا جب ایک دوست کا فون آیا۔ علیک سلیک کے بغیر ہی بنا کسی تمہید کے مجھ ذات شریف کو صلواتیں سنانے لگا، میں نے اسے اللہ رسول کا واسطہ دے کر ماجرا پوچھا تو کہنے لگا، "آج ڈیرے پر ملنے کیوں نہیں آئے؟” میں بولا بھئی دہقان آدمی ہوں دس کام ہوتے ہیں۔

سور لاسپور

مجھے سختی سے ٹوک کر چپ کرایا گیا اور "جس کھیت سے دہقان” والے شعر کی ایک نئے اور اچھوتے پیرائے میں تشریح کر کے مجھ پر یہ بات واضح کی گئی کہ زمانہِ جدید میں زراعت کو ترک کرنے میں ہی راحت و عافیت ہے۔

خیر شعر مجھے کسی قدر ذہن نشین کرانے کے بعد یہ بھی بتایا گیا کہ اگلے دن ضرور ڈیرے پر حاضری لگاؤں۔

دوسرے روز میں قبل ازوقت ہی حاضری لگانے پہنچ گیا تاکہ اس بار دوستوں کو شکایت کا کوئی موقع ہاتھ نہ آنے پائے۔ وہاں پہنچا تو چاروں دبکے بیٹھے تھے گویا میرے ہی منتظر تھے۔ میں مشکوک نظروں سے انھیں گھورنے لگا۔ وہ سب مسکرا رہے تھے لیکن ان کی مسکراہٹ میں زہر ملا ہوا تھا۔ میرا شک یقین میں بدل گیا کہ دال میں کچھ تو کالا ضرور ہے۔ میرے جابجا استفسار پر بھی کسی نے اصل موضوع کو چھیڑنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ آخر میں نے ایک نسبتاً سنجیدہ دوست اظہر سے پوچھا کہ معاملہ آخر کیا ہے۔ بولا، کل ایک ٹوئیر کا متفقہ پروگرام بنایا گیا ہے۔ یہ سن کر میں جو چہکا ہوں پرندے بھی دیکھتے تو رشک سے مر جاتے۔ مجھے ان سب کی زہر ملی مسکراہٹ میں بچوں کی سی معصومیت جھلکتی ہوئی نظر آئی۔ خود کو کوسنے لگا کہ یہ تو فرشتہ صفت لوگ ہیں ان پر شک کرنا صریح معصیت ہے۔

کھشکھانیوغ

کب اور کہاں جانا ہے میں نے تفصیلات میں دایاں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی۔ "بشقار گول جانا ہے۔ وہ بھی محض ایک ہفتے بعد” خلیل نے فخریہ انداز میں کہا۔

"جی نہیں بچے…میں تحکمانہ لہجے میں بولا اور سب لڑکے وضاحت طلب نظروں سے مجھے تکنے لگے”۔

میں وضاحت کرنے لگا کہ
دیکھوں لڑکو! میں عمر میں تم سب سے بڑا ہوں اسی لئے مشرقی روایات کی رو سے صرف میری ہی رائے قابل احترام اور قابل عمل ہے۔ تم لوگوں کی ابھی تک داڑھی تک نہیں نکلی نہ تم میں سے کسی کے پاس شناختی کارڈ ہے۔ مطلب تم پوری طرح مسلمان بھی نہیں ہوئے اور پاکستان کے شہری بننا تو دور کی بات۔

دیکھو میرا ذاتی تجربہ ہے کبھی بھی تفریحی سفر کیلئے ارادے نہ باندھو بس سیر کا خیال آجائے تو اگلے پل سامان اٹھا کر چلتے بنو۔

تفریح کےارادے تو ہر کسی کے ہوتے ہیں لیکن ارادے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھو! کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے،

"ارادے باندھتا ہوں باندھ کر پھر توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

بشقار گول جھیل

لیکن تیاری وغیرہ میں وقت تو لگتا ہے۔ شمشیر نے عذر پیش کیا اور میں نے بڑی بے رحمی کے ساتھ اس عذر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو! تاریخ گواہ ہے کوئی بھی سفر جس کیلئے زیادہ سوچ بچار اور تیاری کی جائے وہ کبھی سپھل نہیں ہوتا۔ لڑکے سب میری فہم و فراست کی داد دینے لگے۔

میں نے بھی قدرے گھمنڈ کے ساتھ کہا، "چلنا ہی ہے تو پرسوں سب تیار ہو جاؤ، جو کچھ تیاری ضروری ہے وہ کل تک ہو جائیگی۔

بشقار گول

سب لڑکوں نے آمادگی ظاہر کی۔ اگلے روز تمام ضروری تیاری بھی ہوگئی اور سفر کا ایک نقشہ سا تیار کر لیا گیا کہ کہاں قیام کرنا ہے، کہاں کھانا پکانا ہے، کیا چیز ساتھ لینی ہے، کیا چھوڑنی ہے، کتنے دن کا پلان ہے وغیرہ وغیرہ۔ گھر سے اجازت ماشاءاللہ سب کو مل گئی تھی اور سفر کا امیر مجھ خاکسار کو چنا گیا تھا۔ گویا ہم کوئی زمانہ سلف کے عرب کے قبائلی تجارتی قافلے ہوں جنہیں صحرا کے دشوار گزار راہوں پر طوفان اور لٹیروں سے بچ کر جانے کیلئے کسی نڈر اور حاضر دماغ رہبر کی ضرورت ہو۔
دفعتاً مجھے، "مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں” والا شعر یاد آگیا اور میں اپنی زمہ داریوں کا سوچ کر گاہے بگاہے کچھ خائف بھی ہوتا رہا۔

(جاری ہے)

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button