کالم نگار

یوم امامت کے اسماعیلی عالم پر اثرات

سردار علی سردار

گیارہ جولائی عالمِ اسلام اور خصوصاََ عالمِ اسماعیلیت کے لئے نئے ولولے اورجزبے کا دن ہے کہ اس دن شہزادہ کریم آغاخان چہارم اپنے دادا جان حضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سویم کی وفات کے بعد تحتِ امامت کے مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔

آپ کی تحتِ نشینی عالمِ اسماعیلیت کے لئے بہت ہی خوشی اور شادمانی کا دن ہے کہ اُن کے روحانی پیشوا اپنے مریدوں کی دنیوی اور روحانی فلاح وبہبود کے لئے ہمہ وقت حاضر اور موجود ہیں جن کی ہدایت کے سائیے میں زندگی گزارتے ہوئے یہ جماعت علمی، مذہبی، اخلاقی ،عقلی اورسماجی طور پر آپ نے آپ کو مضبوط اور توانا رکھی ہوئی ہےاور اسماعیلی جماعت کے لئے یہ دن نیک بختی اور سعادت مندی کی علامت ہے کہ اسماعیلی جماعت کو ان کے امام آج کل تبدیلی کی اس برق رفتار دنیا میں جس میں نت نئے مسائل اور چیلنجیز ہر وقت انسان کو محوِ حیرت میں ڈال دیئے ہیں زندگی گزارنے کے لئے جامع ہدایت اور وقت کے مطابق رہنمائی کرتے رہتے ہیں اس حقیقت کا اظہارحضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سویم نے اپنے بعد آنے والے امام کے لئے وصیت کرتے ہوئے یوں فرمایا۔” حالیہ سالوں میں دنیا میں بدلتے ہوئےبنیادی حالات کے پیشِ نظربڑی بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے جن میں ایٹمی سائنس کی دریافتیں بھی شامل ہیں ہمارا یقین ہے کہ یہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے لئے بہترین مفاد میں ہوگاکہ ہمارا جانشین ایک نوجوان آدمی ہوجس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پرورش پائی ہواور ہوش سنبھالا ہواور جو اپنے منصب میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدیدنقطہ نظر لائے”۔ (تاریخ آئمہ اسماعیلیہ حصّہ چہارم ص 164) 

 آغاخان سویم کے اس وصیت نامے پر اگر غور کیا جائےتو معلوم ہوگا کہ آج شہزادہ کریم کی چونسٹھ سالہ دورِ امامت میں اسماعیلی دنیا میں ترقی کی ایک انقلاب برپا ہوا ہےجس میں سائنسی ایجادات،تیکنیکی انقلاب کی رعنائیاں اور دیگر بے شمار دریافتیں شامل ہیں جن کی وجہ سے علم کا فروغ بے حد آسان ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معلومات پل بھر میں کمپیوٹر کی ایک بٹن کلک کرنے سے سب کچھ سامنے آجاتی ہیں۔ایسے ٹیکنالوجیکل دور میں زندگی گزارنے کے لئے پرنس کریم آغاخان کی امامت دنیائے انسانیت کے لئے بہتر رہنمائی دے سکتی ہے جنہوں نے اپنے دادا جان کی وصیت کے مطابق عالمِ اسلام اور خصوصاََ اسماعیلی جماعت کی فلاح وبہبود کے لئے اپنے فرائض منصبی کما حقہ انجام دے رہے ہیں۔ 

جیسا کہ آپ نے 13 جولائی 1957 ء کو جینوا میں اپنے مریدوں سے پہلی ملاقات کے موقع پر یوں فرمایا۔ ” ہمارے دادا جان نے اپنی زندگی امامت اور اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔یہ دونوں اُن کے لئے آولین اور سب سے بلاتر تھے۔ اُن کے آخری مہینے میں جو ہم نے اُن کے ساتھ گزارا اور دوسرے کئی اوقات میں ہمیں اُن کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ اُن کی رہنمائی اور حکمت ہمارے لئے کافی مددگار ثابت ہوگئی۔ ہم تمہاری دنیاوی اور روحانی ترقی کے لئے ہر ممکن کام کریں گے۔ جیسا کہ تم ہمارے پیارے دادا جان کے دل اور خیالات میں تھےاسی طرح ہمارے دل اور خیالات میں ہوں گے”۔ 

 (تاریخ آئمہ اسماعیلیہ حصّہ چہارم ص 165)

پرنس کریم آغاخان چہارم اپنے دادا جان کی وصیت اور خود اپنی اس وژن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہ صرف اپنی جماعت، امتِ مسلمہ بلکہ عالمِ انسانیت کے لئے شب وروز کام کررہے ہیں ۔ درحقیقت آپ کا مشن دین و دنیا کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لئے ہے کیونکہ دینِ اسلام ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ دنیوی ترقی کے حصول کے ساتھ ساتھ اخروی نجات کے لئے بھی کوشش کی جائے۔ نبی کریم ﷺ کی یہ پر حکمت حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اُمِرتُ لِصَلاَحِ دُنَیاکمُ وَ نِجَاتِ آخِرَتِکمُ۔ 

ترجمہ: میں تمہاری دنیوی اور روحانی فلاح و بہبوو کے لئے مامور ہوا ہوں۔ 

اس حدیث مبارکہ سے ہر اہلِ علم کے لئے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر کا مشن دین و دنیا دونوں کے لئے ہے۔ اسی مقدس مشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پرنس کریم آغاخان بہ حیثیت امام اسماعیلی جماعت کے نہ صرف دنیوی ترقی کی بات کرتے ہیں بلکہ روحانی زندگی کو بھی آباد کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ جیسا کہ 26 دسمبر 1959 ء کو نیروبی میں اپنی جماعت سے ملاقات کرتے ہوئے آپ نے فرمایا "جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے جائیں گے آپ مسائل کے ایک بلکل نئے مجموعے سے دوچار ہونگےجو آجکل کے رونما ہونے والے فنی انقلاب کی پیداوار ہوگا اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ یاد رکھیں کہ مذہب کے بغیر ان مسائل کا مقابلہ ہمارے لئے ناممکن بات ہے، آپ اپنی تمام اخلاقی تعلیم مذہب سے حاصل کرتے ہیں اور جب آپ کو فیصلہ کرنے ، مسائل کا مقابلہ کرنے ، بیرونی دنیا جیسے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے کہا جائے گا تو لازمی طور پر آپ کو مذہب کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہ سب اپنے ذہن میں رکھیں کیونکہ یہ آپ کے مستقبل کے لئے ضروری ہوتا جارہا ہے”۔ 

(نیروبی 26 دسمبر 59 19 )

آپ کے اس ارشاد سے یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں ترقی کے ساتھ ساتھ مسائل کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے ۔ اور ان مسائل اور چیلنجیز کا مقابلہ صرف اور صرف مذہب کی طرف رجوع کرکے کیا جاسکتا ہے۔گویا مذہب ترقی کی مثبت راہوں کے حصول میں کہیں پر بھی دیوار کھڑی نہیں کرتا بلکہ آسمانوں کی وسعت کو بھی کھوج لگانے کی بار بار تاکید کرتا رہتا ہے۔جب مذہب کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل ہوجائے تو انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہمارے لئے ہر آنے والا دن نئی امیدوں، آرزوں اور نئے تصورات کا دن ہوگا اور ماضی کی نسبت مستقبل یقیناََ خوشیوں اور مسرتوں سے لبریز ہوگا۔ یہ البتہ اس صورت میں ممکن ہوگا کہ ہم جدید صنعتی دنیا میں مذہب کی صحیح سمجھ حاصل کریں ورنہ ہم مادی آسائشوں میں مگن رہ کر روحانی خوشی سے محروم رہ جائیں گے۔ آج کی دنیا مادیت کی دنیا بنتی جارہی ہے ۔ لوگ مادی آسائشوں کے پیچھے پڑ کر مذہبی معاملات میں اپنی دلچسپی کم دیکھار ہے ہیں گویا صنعتی اور سائنسی دنیا کی یہ رنگینی نئی نسل کو مسحور کررہی ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دین و دنیا دونوں میں کامیابی کے لئے کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ پرنس کریم آغاخان نے مسند امامت پر جلوہ افروز ہوتے ہی اپنی فکری مشن کی ترویج و اشاعت کے لئے ہمہ وقت سرگرمِ عمل ہیں جس کا عملی اظہار انہوں نے اپنے اداروں، منصوبوں اور پروگرامات کے ذریعے کررہے ہیں ان اقدامات سے نہ صرف اسلام کی اشاعت مطلوب ہے بلکہ غیر اسلامی دنیا میں بھی اسلام کے بارے میں منفی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے مثبت سوچ کا فروغ ہے۔جیسا کہ اسماعیلی تاریخ کے ماہر داکٹر فرہاد دفتری کا کہنا ہے کہ "گویا کہ شہزادہ کریم نے اپنے دادا کی جدید سازی کی پالیسیاں جاری رکھی ہیں اُن میں بنیادی وسعت پیدا کی ہے اور اپنی طرف سے بھی اپنی جماعت کے فائدے کے لئے بہت سے نئے پروگراموں اور اداروں کو ترقی دی ہے عین اُس وقت آپ نے اپنی توجہ طرح طرح کے سماجی، ترقیاتی اور ثقافتی مسائل کی جانب مبزول کی جو مسلمانوں اور تیسری دنیا کے ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ آغا خان چہارم نے نہ صرف اسماعیلی امام کی حیثیت سے بلکہ ایک ایسے مسلمان رہنما کی حیثیت سے بھی جنکی جدیدیت کے تقاضوں اور پیچدگیوں پر گہری نظر ہو اور طریقِ اظہار اور تشریحات کی گونا گونی کے ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن کی بہتر سمجھ کو ترقی دینے کے لئے خود کو وقف کیا ہو، کارناموں کا ایک دلکش ریکارڈ قائم کیا "۔ 

 (اسماعیلی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ ، ڈاکٹر فرہاد دفتری ۔ مترجم ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ ص 356 )

پرنس کریم آغاخان کی شروع ہی سے پاکستان سے خصوصی دلچسپی اوروالہانہ محبت رہی ہے کیونکہ آپ کے دادا جان کی پیدائیش بھی کراچی میں ہوئی تھی اس وجہ سے آپ بھی پاکستان سے محبت کو اپنی زندگی کا حصّہ سمجھتے ہیں جس کا واضح اظہار آپ کی اکثر تقریروں میں سننے کو ملتا ہے ۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ "یہاں اکر مجھے گھر کا سکون ملتا ہے اور میں جہاں بھی رہوں پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ یہاں کی ترقی میں آ پ کے ساتھ رہوں” ۔

(دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ ہز ہائی نس پرنس کریم آغاخان چہارم ص 129 )

جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ شہزادہ کریم نے 1965ءمیں آغاخان فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت معاشی،صحتی اور اقتصادی منصوبے پایہء تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی علاقہ جات اور چترال میں دہی تنظیمیں لوگوں کی معاشی، علمی،ثقافتی اور اقتصادی حالات کو بہتر کرنے کے لئے شب وروز کام کررہی ہیں۔ آپ نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے آغاخان ہیلتھ سروس کی بنیاد رکھی جس کے تحت پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہیلتھ سنٹرز اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ہیلتھ کے شعبے کو مذید ترقی دیتے ہوئے آپ نے 4 فروری 1971 ء کو کراچی میں آغا خان ہسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا جس کا باقائدہ افتتاح صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیالحق مرحوم نے فروری 1981 ء کو ایک پرُوقار تقریب کے بعد کیا جس میں ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان خود بھی شریک تھے ۔آپ نے نہ صرف ہیلتھ کے شعبے میں ہی خدمات انجام دی بلکہ پوری دنیا میں علم کی روشنی کو پھیلانے کے لئے اسکول، کالجیز اور یونیورسٹیز کا جال بھی بچھا رکھے ہیں جس کا واضح ثبوت شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغاخان ہائر سکنڈری اسکول اور کالیجیز ہیں جس سے فارع التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ہزہائی نس کی ان تمام علمی اور اقتصادی کاوشوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ترقی کا ایک جامع تصّور رکھتے ہیں جس میں سب کی ترقی اور بہبودی کا وژن نظر آتا ہے۔کیونکہ آپ کے اس وژن میں امتِ مسّلمہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کی دنیوی اور روحانی فلاح و بہبود بھی خاص نظر آتا ہے ۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آپ اور آپ کے خاندان کی علم سے دوستی اور محبت کی وجہ سے ہر وقت علم کی شمع روشن ہوئی ہے۔استاد محترم اعتمادی فدا علی ایثار نے کیا خوبصورت شعر لکھا ہے۔

الموت کی شان جامعِ اظہر کی بزرگی

دنیا کو دیکھا دیجئے وہ عظمتِ ماضی

گفتار میں کردار میں ہوجائیں یگانہ

تا درسِ عمل تم سے ہی لے اہلِ زمانہ

آج یومِ امامت کے اس عظیم دن کے موقع پر یہ تہیہ کریں کہ ہم بھی ہز ہائی نس پرنس کریم کےترقی سے متعلق ان جدید تصوّرات کو اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں۔اور اپنی انے والی نسل اور اولاد کے لئے اس دنیا کو علمی طور پر خوبصورت بنانے کی کوشش کریں۔ لوگوں کو آمن وآشتی، محبت ، رواداری، مساوات ، عفو درگزر،رحم دلی اور خدمتِ انسانیت کا درس دے دیں ۔ کیا خوب فرمایا الطاف حسین حالی ؔنے

یہی ہے مذہب یہی دین و ایمان

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button