اپر چترالخبریںخودکشیسماجیمستوج

مرے ہوئے ساتھ ورثاء کو نہ مار دیا جائیں۔

 چمرکھن (اداریہ)   چترال کی بدقسمتی ہے کہ یہاں آئے روز کہیں نہ کہیں سے خودکشی کی خبر سننے کو ملتی ہے، پہلے پہل میڈیا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کیسز کی خبر پولیس تک پہنچنے سے پہلے دب جاتی تھی، لیکن جب سے زرائع ابلاغ تک رسائی ممکن ہوئی ہیں اور خودکشی کے کیسز رپورٹ ہونی شروع ہوئی ہیں تب سے خودکشی کے کیسز میں پولیس رپورٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ لازمی قرار دی گئی ہیں۔ ایسے میں دور دراز کہیں خودکشی کا کیس ہو جائیں تو ابتدائی رپورٹ کے بعد پولیس لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کےلئے لوئر چترال میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور اپر چترال میں ٹی ایچ کیو بونی لے کر جاتی ہے، اس دوران لاش کو ہسپتال لے جانے اور واپس لانے کےلئے گاڑی کے بندوبست و دیگر اخراجات کی ادائیگی ورثاء کو کرنی پڑتی ہے۔ دور افتادہ علاقوں سے ان ہسپتالوں تک گاڑی کا کرایہ ہزاروں روپے ہیں اوپر سے دیگر اخراجات جب شامل ہو جائیں تو متوفی کے لواحقین کی جیبیں بھی خالی ہو جاتی ہیں۔ جس گھر میں خودکشی جیسا اندوہناک کیس ہوا ہو، گھر میں ماتم ہو اور اوپر سے اس طرح کے لوازمات ورثاء کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

    چمرکھن نے اس سلسلے میں اسماعیلی لوکل کونسل بریپ  یارخون کے پریذیڈنٹ جناب غفار  احمد صاحب سے اس سلسلے میں رائے لی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی عجیب صورتحال بھی ہے اور دردناک بھی، کیونکہ یہاں خودکشی کے کیسز ذیادہ تر ایسے گھروں میں ہوتے ہیں جن کے پاس لاش یارخون سے بونی تک پہنچانے کےلئے کرایہ تک موجود نہیں ہوتا، ایسے میں ورثاء کے پاس کہیں سے ادھار مانگنے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہوتا کیونکہ بغیر پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کاروائیوں کے وہ اپنے پیارے کی لاش کو دفنا بھی نہیں سکتے۔ دو ایک کیسز ایسے بھی ہوئے کہ جب ورثاء نے ہاتھ کھڑے کئے تو لوکل کونسل کے خرچے پر پوسٹ مارٹم کا بندوست کیا گیا۔ 

     اس پوسٹ کے ذریعے ہم حکومت وقت سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ خودکشی کی بیخ کنی کےلئے پوسٹ مارٹم کروانا اہم اقدام ہے لیکن لاش کو ہسپتال تک پہنچانے کےلئے ایمبولینس یا دیگر ذرائع کا بندوست انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت وقت کریں تاکہ مرے ہوئے کے ساتھ ورثاء کو بھی نہ مرنا پڑیں۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button