طرز زندگیکالم نگار

مجھے مارو

خوشبو رفیق

 

 

"میں نے ایک مشین بنائی ہے جو اس صدی کی سب سے بڑی ایجاد ثابت ہوگی۔ یہ ایسی مشین ہے جس کے استعمال سے انسان کو سفر کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ بس آپ مطلوبہ منزل کا کوڈ دبائیں اور آہستہ آہستہ آپ کا جسم تحلیل ہونا شروع ہوجائے گا، اور جس جگہ آپ کو پہنچنا ہے وہاں نمودار ہونے لگے گا۔ بس تیس سیکنڈ کے قلیل وقت میں آپ کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔”

عاقل اسکول میں میرا ہم جماعت ہوا کرتا تھا۔ ہم اسے”دیسی آئن اسٹائن” کہا کرتے تھے۔ پانچویں میں ہوتے ہوئے بھی وہ نویں دسویں کی کتابوں میں دی گئی سائنسی گتھیاں سیکنڈوں میں سلجھا لیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود استاد اس سے بہت نالاں رہتے تھے کیوں کہ اکثراوقات وہ اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتے تھے۔ عام زندگی میں وہ ایک غریب اور جذباتی لڑکا تھا جسے ہم پیٹھ پیچھے خبطی کے لقب سے بھی نوازتے تھے۔ اسکول کے بعد ہمارا رابطہ نہیں رہا۔میں صحافت میں گریجویشن کے بعد غمِ روزگار میں مبتلا ہوگیا۔ انھی دنوں میں نے فیس بک پر اس کی پروفائل دیکھی تو اسے اپنے دوستوں میں شامل کرلیا۔ اس کی ٹائم لائن سائنسی پوسٹس اور تجزیات سے بھری رہتی تھی۔

اب یہ ٹریول مشین والی پوسٹ جس کے آخر میں اس نے اپیل کی تھی کہ اس ہوش اڑا دینے والی ایجاد کے عملی مظاہرے کے لیے اسے اسپانسر کیا جائے کیوں کہ اس کی ساری پونجی اس مشین کو بنانے میں صرف ہوچکی۔

میں فارغ بیٹھا تھا لہٰذا اس کی پوسٹ پر لوگوں کے کمنٹس پڑھنے لگا:

"ابے کیا ‘چ’ بنا رہا ہے۔ منے جاگ جا خواب سے۔”

میں اس لڑکے کو جانتا تھا، یہ اسکول میں سب کو اخلاقیات کا درس دیا کرتا تھا۔

"یہ ایجاد اصولاً حکومت کی پراپرٹی ہونی چاہیے تاکہ وہ اسے مفادِ عامہ کے لیے استعمال کرے۔”

یہ بھائی صاحب حکومتی جماعت کے فعال کارکن تھے۔

"ایسی ایجادات پر بین ہونا چاہیے، آپ گاڑیوں کی کمپنیوں سے لے کر جوتوں کی فیکٹریوں تک سب روزگاروں کو تالا لگانا چاہتے ہیں؟”

یہ کمنٹ انسانیت کا درد رکھنے والے باریش بزرگ کا تھا جو ایک یونیورسٹی میں شعبہ ء معاشیات کے سربراہ تھے۔

"بس جی کیا کہیں آج کی نئی پود کتنی آرام طلب ہوگئی ہے۔ خدا نے چلنے پھرنے میں شفا رکھی ہے۔ لیکن یہ خدا کے نظام میں خرابیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی ایجاد ایک فتنا ہے۔”

نیچے ایک ڈاکٹر کا رپلائے تھا۔

میں مزید اسکرول کررہا تھا کہ بجلی چلی گئی۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری سے عاقل کے گھر کا فون نمبر ڈھونڈا اور اسے کال ملائی۔ خوش قسمتی سے نمبر اب بھی وہی تھا اور کال عاقل نے اٹھائی۔

پریشانی اس کی آواز سے چھلک رہی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جب میں نے اس کی ایجاد کی بابت دریافت کیا تو وہ پھٹ پڑا،

"یار مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ جب سے پوسٹ لگائی ہے مختلف ٹی وی چینلز سے کالز آرہی ہیں کہ آپ سب سے پہلے ہمیں انٹرویو دیں۔ لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک وزیر کے سیکرٹری کی کال آئی جس نے مجھے بتایا کہ ایسی کسی ایجاد کی تشہیر غیرقانونی ہے اور میں اپنی ایجاد فوراً حکومت کے حوالے کردوں ورنہ میرے خلاف کارروائی ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ میری مشین خراب ہوگئی ہے۔ چلو میں تم سے پھر بات کرتا ہوں، دروازے پر کوئی آیا ہے۔”

میں فون رکھ کر نہانے چلا گیا۔ ابھی نہا کر بال خشک کررہا تھا کہ موبائل بجا۔ دیکھا تو عاقل کے گھر کا نمبر تھا۔ فون اٹھایا تو اس کے ابو کی پریشان حال آواز سنائی دی۔

” بیٹا عاقل کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ تم صحافی ہو، کچھ مدد کرسکتے ہو؟ وہ کہتے ہیں کہ مشین ہمارے حوالے کردو۔ عاقل نے کہا کہ ایسی کوئی مشین نہیں ہے۔ جس پر انھوں نے پورے گھر کی تلاشی لی اور پھر اسے ہمارے سامنے دو تھپڑ لگائے، اور کہنے لگے کہ ایسی گم راہ کن پوسٹ لگانے کا مطلب تو اب ہم تجھے تھانے لے جاکر سمجھاتے ہیں۔”

عاقل کے ابو رونے لگے،”بیٹا ہم سیدھے سادے لوگ ہیں، ہمیں یہ تھانے کچہری کے چکر نہیں پتا۔ ہمارے گھر کے پرانے اسٹور میں کپڑوں کی پیٹی کے پیچھے ایک بڑا سا سوراخ ہے جہاں عاقل بچپن میں اپنے کھلونے چھپا دیا کرتا تھا۔ مجھے وہاں سے ریموٹ کنٹرول جیسی ایک مشین ملی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ وہی موئی مشین ہے۔ تم میرے ساتھ تھانے چلو۔ ہم یہ مشین ان کے حوالے کرکے عاقل کو واپس لے آئیں۔”

میں نے انھیں بہتیرا سمجھایا کہ ہم ویسے ہی جاکر عاقل کی ضمانت کی بات کرتے ہیں لیکن وہ نہ مانے۔ ناچار میں ان کے ساتھ تھانے گیا جہاں پہنچتے ہی انھوں نے وہ ریموٹ ایس ایچ او کی میز پر رکھ دیا۔

” یہ لیں مشین اور میرے بیٹے کو رِہا کردیں۔”

ریموٹ دیکھ کر تھانیدار کے ہونٹوں پر ایک خفیف مسکراہٹ نمودار ہوئی، "اوئے شمشاد، ذرا لے کر آ اس لونڈے کو۔ دیکھو یہ گھر سے کیا کھلونا اٹھا لائے ہیں۔”

عاقل آیا تو اس سے ٹھیک طرح سے چلا نہیں جارہا تھا۔ اس کی ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی اور قمیض کندھے پر سے پھٹ گئی تھی۔

"ہاں بھئی، تو یہ ہے اس صدی کی سب سے بڑی ایجاد؟” ایس ایچ او نے اس کے سامنے ریموٹ لہراتے ہوئے پوچھا۔

"ذرا ہمیں بھی چلا کے دکھاؤ!”

عاقل نے ریموٹ ہاتھ میں لے کر کچھ بٹن دبانے شروع کیے اور پھر ہم سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ آہستہ آہستہ اس کا جسم تحلیل ہونے لگا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی ایجاد سمیت غائب ہوگیا۔

اس کے والد آج بھی اپنے بیٹے کا انتظار کرتے ہیں۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button