خبریںکالم نگار

افعان طالبان کی فتح

نثار احمد

ترش و شیرین

 

الآخر وہ دن دیکھنا ہمیں نصیب ہوا جسے دیکھنے کی تمنا لے کر کئی سفید ریش بزرگ اس دنیا سے چلے گئے۔ باقی کیا، امریکہ کے ہاں میں ہاں نہ ملا کر گوریلا جنگ کا بڑا فیصلہ والے ملا عمر مرحوم بھی دن دیکھنے کے لیے آج نہیں رہے ہیں۔ دراصل استعمار کے خلاف برسرپیکار، مزاحمتی جدوجہد کی عملی تصویر افغان طالبان کی فتح کا یقین بہت سوں کو تھا اسی طرح یہ دیکھنے کی آرزو بھی۔ کل وہی دن تھا جب امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی آخری نشانی اشرف غنی کابل ائر پورٹ پر جہاز پہ چڑھ کر الوادعی ہاتھ ہلاتے ہوئے تاجکستان فرار ہوا تو افغانستان میں ذمام ِ اقتدار واپس طالبان کے ہاتھ میں آ گیا۔ 

طاقت کے نشے میں مخمور ہو کر افغانستان پر چڑھ دوڑنے والے ایک دن نامراد لوٹیں گے، یہ سب جانتے تھے لیکن اتنے بے آبرو ہو کر افغانستان چھوڑیں گے شاید اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ کہاں امریکہ اُس کے ہمنوا اتحادی اور کہاں بے سروسامانی کے باوجود گوریلہ جنگ لڑنے والے مٹھی بھر مجاہدین۔۔ کہاں جدید ہتھیاروں سے لیس ساڑھے تین درجن ممالک کا لاؤلشکر اور کہاں وسائل سے عاری چند مزاحمت کار۔

 اس عظیم فتح کو لے کر بحیثیت پاکستانی بھی خوشی ہو رہی ہے اور بحیثیت مسلمان بھی۔

مجھ جیسے لاکھوں بندے آج خوش ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اب افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہو گا، چہار سُو عدل بال و پر نکال کر راج کرے گا، انصاف کا علم بلند رہے گا، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی ، خوش حالی کا دور دورہ ہو گا، ملک میں قانون کا راج اور میرٹ کی حکمرانی ہو گی۔ بلکہ اس خوشی کی وجوہات دوسری ہیں مذکورہ بالا نہیں۔

 طالبان کا افغانستان کیسا ہو گا، جدید دنیا کے ساتھ طالبان اسے ہم آہنگ کر کے چلا سکیں گے یا نہیں؟ انتظامی انارکی پھیلے گی یا نہیں،۔سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کا مبارک عمل رواں دواں رہے گا یا اسے جہل کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ سردست تیقن کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ ان سب سوالوں کا جواب فی الحال ہمارے پاس ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ہمیں زیادہ خوش فہمی ہے۔ دوسروں کی طرح ہمیں بھی اچھے کی امید و انتظار ہے بس۔ اللہ کرے کہ طالبان ان چیلنجز سے سرخ رو کر نکلیں۔ آج ریاست چلانے کے تقاضے الگ اور ضروریات جدا ہیں۔ صرف طاقت کے بل بوتے پر ریاستیں نہیں چلا کرتیں۔ ریاستی نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ہی نہیں، لوگوں کو دو وقت کی روٹی تک رسائی کے لیے مواقع پیدا کرنا بھی بڑی انتظامی بصیرت مانگتی ہے۔

 دراصل طالبان کی فتح کو لے کر خوش ہونے کی ایک وجہ سات سمندر پار سے وارد ہو کر بدکے ہوئے بدمست ہاتھی کا حواریوں سمیت ذلیل وخوار ہونا ہے۔ امریکہ اپنے اتحادی نیٹو افواج کو لے کر جس طمطراق اور کروفر کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا آج اسے واپس جاتے دیکھ کر، اور اقتدار اُس کے "پروردہ” انتظامیہ سے چِھنتا دیکھ کر بخدا بڑا چس آ رہا ہے۔ پہلے نیٹو ممالک کان پکڑ کر ایک ایک کر کے کھسک گئے بعد ازاں مذاکرات کے کئی دور چلا کر خود امریکہ بہادر بھی محفوظ راستہ مانگ کر پتلی گلی سے نکل جانے میں عافیت جانی۔ آج امریکن این جی اوز کے وہ راتب خور دانشور بھی بہت یاد آ رہے ہیں جو اپنا وظیفہ حلال کرنے کے لیے اس بات کی جگالی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ طالبان مزاحمت کے نام پر مضبوط دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ اس میں نقصان دیوار کا نہیں، خود طالبان کا ہو گا سر پھٹنے کی صورت میں۔ اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑے اور پاؤں میں جوتے نہیں۔ نکلے ہیں سپر پاور کا مقابلہ کرنے۔اسی طرح آج ٹاک شوز پر بیٹھنے والے وہ تجزیہ کار بھی یاد آ رہے ہیں جو افغان طالبان کی مزاحمت کا مذاق اڑا کر ان کے ہمنوا دانشوروں پر ٹھٹہ اڑاتے تھے۔

 خوشی میں سرشار ہونے کی دوسری وجہ افغانستان میں روایتی حریف بھارت کی شکست فاش ہے۔ ہم بھارت سے دوستی کا لاکھ دم بھریں ، دونوں ممالک میں دوستی کی ہزاروں نہیں، لاکھوں خواہش دل میں پالیں۔ پھر بھی موقع ملنے پر انڈیا نے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دینا ہے۔ یہ کوئی گہری منطق نہیں، عام مشاہدے کی بات ہے کہ مودی سرکار پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں کبھی دریغ نہیں کرتا۔ تازہ محاذ اسے افغانستان کی صورت میں ملا تھا۔ یہاں بیٹھ کر پاکستان میں سازشوں کے جال بچھانا اور پھیلانا اُس کے لیے اِس لیے آسان تھا کہ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحدی لائن پاکستان کی افغانستان کے ساتھ لگتی ہے۔ چنانچہ بھارت کے شر سے بچنے کے لیے افغانستان میں پاکستان نواز حکومت کا قیام پاکستان کی ضرورت ہی نہیں، مجبوری بھی ہے۔ خاکم بدہن اگر افغانستان میں انڈیا نواز حکومت مستحکم رہتی تو اس کا ناقابلِ تلافی نقصان کسی اور ملک کو نہیں، خود پاکستان کو اٹھانا پڑتا۔ پاکستان کی افغانستان میں مبیّنہ مداخلت پر اشرف غنی اینڈ کمپنی اور مودی سرکار ہی عورتوں کی طرح رونا دھونا نہیں کر رہے تھے، ہمارے بعض دانشور بھی اس مبیّنہ مداخلت پر "نامعلوم” ریاستی کارندوں کو ہدف ِ تنقید ٹھہراتے تھے۔ آج ان دوستوں کو بھی معلوم ہوا ہو گا کہ یہ”مداخلت” ہمارے کارندے ریاست کے مفاد میں مجبوراً کر رہے تھے۔

 یہاں آج ان حضرات سے بھی اظہارِ تعزیت کا من کر رہا ہے جو بوجوہ پوری طرح لبرل ازم کے رنگ میں خود کو رنگ سکے اور نہ بالکل نیوٹرل رہ سکے۔ یہ "حضرات” کل سے آپے سے تقریباً باہر ہیں۔ امریکہ نے جب انخلاء کا اعلان کیا تو کہتے پائے گئے تھے کہ امریکہ کو نہیں جانا چاہیے۔ یہاں کے متحارب جنگجووں اور طالبان میں نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گی نتیجتاً ہر طرف کشت و خون ہو گا۔ اور خون ِمسلم خوب ارزاں ہو گی۔ اب جب طالبان کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت ایسا کچھ نہیں ہوا تو پینترا بدل کر یہ کہنے لگے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مل گئے ورنہ افغان آرمی نے ہتھیار ڈالنے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی۔ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایک تو اشرف غنی اینڈ انتظامیہ اور دوسرے جنگجو سرداروں کے کچھ ایسے داخلی ٹھوس اختلافی مسائل تھے جن کی وجہ سے وہ متحد ہو کر طالبان کا سامنا نہیں کر سکے دوسرا یہ کہ ایسا نہیں ہوا کہ طالبان ایک دم زمین سے اُگ آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان پر پھیل گئے۔ سن دو ہزار دس سے پہلے ہی "متعلقہ” دوستوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ افغانستان کے زیادہ تر حصوں پر عملاً کنٹرول طالبان کا ہے۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے صحافی چھ سات سال قبل سے لکھتے رہے ہیں کہ ستر اسی فیصد افغانستان پر کابل انتظامیہ کا نہیں، طالبان کا کنٹرول ہے۔ وہاں پر تعینات ہونے والے انتظامی اہلکار بھی طالبان کی اجازت و رضا مندی سے ہی اپنی زمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ مطلب میدان سازی پہلے سے ہوئی تھی صرف موافق حالات کا انتظار تھا۔ جونہی حالات سازگار ہوئے، طالبان نے کابل میں داخل ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ اس لیے خوہ مخواہ شکوک وشبہات پھیلانے سے بہتر ہے کہ طالبان کی بیس سالہ مزاحمت سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے۔ 

بہرحال ہماری نیک تمنائیں افغان عوام کے لیے اور مثبت جذبات طالبان کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں افغان عوام کے حق میں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button