کالم نگارلٹکوہ

بشقیر گولوغ کے اس پار دریا کنارے تنہا آدمی

نثار احمد شاہ

 

بِشقیر گولوغ کے اِس پار دریا کنارے تنہا آدمی۔

پابلونرودا سے پہلی شناسائی کب ہوئی کچھ یاد نہیں۔ اتنا یاد ہے ان کی ایک نظم پڑھی، پھر اپنے محبوب تریں شاعروں میں اس کا نام لکھ دیا۔۔۔ "تم آہستہ آہستہ مر رہے ہو، اگر تم مطالعہ نہیں کرتے، اگر تم زندگی کی آوازوں کو نہیں سنتے۔ تو تم آہستہ آہستہ موت کی طرف جا رہے ہو۔ جب تم اپنی عزت نفس کو قتل کرتے ہو، تو تم۔۔آہستہ آہستہ مر رہے ہو۔” لاطینی امریکہ (چلّی) سے تعلق رکھنے والے نیرودا کو 1971 میں ادب کا نوبل انعام ملا۔

اپنی خودنوشت میں نرودا نے تین فرانسیسی بہنوں کا ذکر کیا ہے جوچلّی کے پہاڑوں میں ایک پر اسرارمکان میں رہتی تھیں۔ ایک بار نیرودا راستہ کھو بیٹھا، پھر پہاڑوں سے آتا ہوا ایک کسان نیرودا کو تیں بہنوں کے گھر کا راستہ بتایا۔ رات کی تاریکی میں دروازہ کھٹکھاٹا نے پر، سفید بالون والی اک خاتوں جو سیاہ لباس میں ملبوس تھی، دروازہ کھولی۔ "کون ہو تم؟ اور کیا چاہتے ہو؟”۔۔میں گندم کی کٹائی کیلئےپہاڑوں پہ جارہا تھا، جنگل میں راستہ کھو بیٹھا ہوں۔ رات گزرانے کیلئے ایک گوشہ چاہیئے۔” اندر آجاو، اور خود کو گھر میں سمجھو” خاتوں بولی۔

نرودا کو ادھر روک لیتے ہیں- چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں۔ میرے سکول کے راستے میں اخروٹ کا ایک عمر رسیدہ درخت تھا، شاید اب بھی ہے, سَماگُلو بِرموغ! اس کے دائیں طرف دریا بہتا ہے، جس کےشفاف پانیون میں ٹراوٹ مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ چند قدم آگے، دریا کے اِس طرف "رومیں، سِنجور اور تیلی” کے درختوں کے سائے تلے مٹی کا گھر تھا، اور بِلاوُر اس گھر کا اکلوتا مکین۔

بِلاوُر نے شادی نہیں کی، اس کے اجداد کوں تھے کسی سے پوچھا، نہ کسی نے بتانا گوارہ کیا۔ میں نے بِلاوُر کو جب بھی دیکھا اکیلا ہی دیکھا۔ ایک دن بارش کے دنوں میں سکول جاتے ہوئے بِلاوُر کو اس کے مکاں کے چھت پہ دیکھا تھا- شاید رات کی بارش سے چھت ٹپکنے لگا ہو، اور وہ چھت کی مرمت کر رہا ہو۔ دوسری بار گرمی کی چھٹیوں سے کچھ روز قبل اسے دیکھا۔ بِلاوُر اپنے گھر کے سامنے بناسپتی گھی کے گملوں میں لگے ہوئے گُلسمبَر کے پھولوں کو پانی دے رہا تھا۔ اور آخری بار اس پُل کے قریب، جو یورجوغ گاوں کو بیشقر سے ملاتا ہے، بِلاوُر میرے قریب سے گزرا۔ اس نے لمبے موزے پہن رکھے تھے، سر پہ کھپوڑ پہنا تھا، جو کثرتِ استعمال سے چمک کھو چکا تھا۔ میں نے سلام کیا، مگر بِلاوُر سپاٹ چہرہ لئے، جس پر غم ، خوشی ، تنہائی یا کسی بھی قسم کے جذبات کا اظہار نہ تھا، آہستہ سے گزر گیا۔

فرانسیسی بہنوں کے والدین بہت پہلے مر چکے تھے، اور وہ تیس سالوں سے جنگل میں رہتی تھیں۔ انہیں اپنے اجداد کی روایات اور اپنے وطن فرانس کے کھانوں سے عشق تھا- وہ پکانے کے فن کی ماہرتھیں۔ اُداس انکھوں والی خاتوں نے پابلو نرودا کوکھانے کے کمرے میں بیٹھا دیا۔ کمرے کے وسط میں گول میز، جس پرسفید میز پوش بچھی تھی، اور نقرئی شمع دانوں میں بہت سی موم بتیاں جل رہی تھیں۔ چاندی اور شیشے کے ظروف سلیقے سے سجائے گئے تھے۔ نرودا کچھ دیر پہلے پسینے میں شرابور ایک خچر سوار کسان لگ رہا تھا، اب ایسا محسوس کر رہا تھا، جیسے اسے ملکہ وکٹوریہ نے اپنے محل میں کھانے پر مدعو کیا ہو!

تھوڑی دیرمیں لذیذ اور خوشبودار کھانے سجائے گئے، تہہ خانے سے فرانسیسی شراب لائی گئی۔ باتوں باتوں میں نرودا نے فرانسیسی شاعر "بودلیئر” کا ذکر کیا ۔ بودلیئر کا ذکر، گویا ایک برقی شعلہ تھا، کہ یہ نام سن کر تینوں بہنیں کھِل اٹھیں۔ اُن کے پاس بودلیئر کی کتاب "فلیور ڈو مال” پڑی تھی۔ اور ان ویراں جنگلوں میں ان کے سوا کوئی بھی فرانسیسی نہیں جانتا تھا۔ پچھلے تیس سالوں میں اِس گھر میں ستائیس مہماں آئے تھے، جن میں کچھ کاروباری تھے، کچھ محض تجسّس کی وجہ سے، اور کچھہ نرودا کی طرح اتفاقیہ مہماں۔ ان بہنوں کے پاس سب مہمانوں کی ذاتی فائل تھی، جس میں آنے کی تاریخ، اور وہ کھانا جو پیش کیا تھا، درج تھا۔

پینتالیس برس بعد اپنی یادین قلمبند کرتے ہوئے نرودا لکھتا ہے۔۔”اس کنوارے جنگل میں رہنے والی ان دیس بدر خواتین اور بودلیئر کی کتاب کا کیا بنا؟ شمعوں سے روشن ان کی شاندار کھانے کی میز کا کیا ہوا۔ ان کی شراب کی بوتلوں کا کیا بنا۔ اور درختوں میں گم وہ سفید مکان؟ سادہ ترین قسمت، موت اور فراموشی!”

بِلاوُر کا فرانسیسی بہنوں سے کوئی تقابل نہیں۔ بِلاوُر اپنی ہستی میں گُم ایک عام آدمی تھا- جس نے شاید ہی کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ اگست 1948 کے فاتحیںِ سکردو، جن کی قیادت ‘گورنر شغور’ کرنل شہزادہ مطاعُ الملک کر رہا تھا، میں بِلاوُر شامل نہیں تھا۔ میرزا محمد غفراں، اور منشی عزیزالدیں کے تاریخِ چترال میں اُس کا کوئی ذکر نہیں۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نےداد بیداد میں کبھی اس کا نام نہیں لیا۔ کیپٹن گارڈن کی خفیہ رپورٹ اور کرنل جی۔جے ینگ ہَزبنڈ کی کتاب بِلاوُرکے ذکر سے یکسر خالی ہیں۔ المختصر، بِلاوُر کو یاد رکھنے کی کوئی توجیہہ نہیں، بھلائے جانے کے ہزار بہانے ہیں۔

میرے گھر کا راستہ اب بھی وہی ہے۔ سکول کو الوداع کیے ہوئے اُنیس سال بیت چکے ہیں۔ مگر جب بھی اس راستے سے گُزر ہوا، دل کے نہاں خانے میں ایک انجاں سی اُداسی محسوس کی۔ بِلاوُر کوں تھا؟ اس نے شادی کیوں نہیں کی؟ زندگی، موت، غم اور تنہائی کے بارے میں اس کے خیالات کیا تھے؟ زندگی سے جڑی بِلاوُر کی سب سے بڑی خواہش کیا تھی؟ سنا ہے سردیوں کی طویل راتوں میں، رات کے آخری پہر بِلاوُر ہڑبڑا کر اٹھتا تھا، دیوارپہ لٹکی ڈھول اٹھاتا اور اک شورِ قیامت بپا کرتا تھا۔ رات کی آخری ساعتوں میں ڈھول پیٹنے کے کیا معنی؟ اور تنہائیوں کےاس کے واحد ساتھی، اُس ڈھول کا کیا بنا؟

بھول جانا اور فراموش کرنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ کسی دن ہم سب بھلا دیئے جائیں گے۔۔ مگر کیا "رومیں، سِنجور اور تیلی” کی درخت، ان پر گھر بسائے پرندے، بیشقر گولوغ کی ٹراوٹ مچھلیاں، اور سماگُل سے منسوب اخروٹ کے اُس بوڑھے درخت نے کبھی اک بار ہی سہی، بِلاوُر کی کمی محسوس کیں؟ بِلاوُر کے جھونپڑی نما گھر کا کیا بنا؟ کیا اب بھی وہاں بناسپتی گھی کے ٹین ڈبوں میں گُلسمبَر کے پھول کھِلتےہیں؟

کیہ رے مِت ݯھیو کیہ ریم، جو بسو رنگان فریبہ
نافخُم گل ہاسیران، گدیری مایون چوڑیران
—بیقرار

Advertisement
Back to top button