اپر چترالخبریںکھیل

زائنی ٹاپ میں منقعدہ نیشنل پیرا گلائڈنگ چیمپئن شب اور اس سے وابستہ تواقعات

اشتیاق احمد

علاقہ موڑکہو الحاق پاکستان سے پہلے بھی ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا اور بعد میں اس کی اہمیت میں اور اضافہ ہوا۔اس کی اہمیت کے بہت سارے وجوہات ہیں اور قدیم زمانے میں وسط ایشیائی ممالک کے افراد بھی یہاں سے گزرے ہیں۔ان وجوہات میں (ریاست چترال کا ایک صوبہ ہونا بھی ہے اور اس وقت کے صوبے کے گورنر یہاں پہ رہائش پذیر رہے ہیں) اور کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی تریچ میر جس کی لمبائی 25290 فٹ ہے اس کو سر کرنے کے لئے بھی سیاح یہاں کا رخ کرتے رہے ہیں اور سب سے پہلے 1950 میں ناروے کی مہم جوءوں نے اس کوسر کیا)۔تریچ میر چترال کے مرکز سے بھی نظر آنے کی وجہ سے پورے علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
موڑکہو سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی افراد چترال میں اہم حکومتی ذمہ داریوں پہ فائز رہے ہیں اور انھوں نے ملک و ملت اور اپنے علاقے کی بہتر خدمت کی ہوئی ہے۔سیاحتی اعتبار سے بھی موڑکہو کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں یہاں پر پھر سے سیاحت کے فروغ کیلئے درد دل اور صرف اپنے علاقے کی ترقی کے جذبے سے سرشار نوجوان شاہ فورمین رئیس اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور موڑکہو کو پھر سے اہمیت کا حامل بنانے کی تڑپ دل میں لئے مختلف سرکاری اور نیم سرکاری افراد کے در پہ دستک دیتے ہیں اور مطالبہ یہی کرتے ہیں کہ صرف اور صرف سیاحوں کا رخ اس جانب بھی موڑ دیا جائے کہ یہاں پہ بھی بہترین مقامات ہیں جہاں پہ ہم پیراگلائڈنگ کے علاوہ دوسرے کھیلوں کا انعقاد ممکن بنا سکتے ہیں۔ان کا مشن یہی ہوتا ہے کہ کسی طرح حکومت وقت کی توجہ علاقہ موڑکہو کی جانب مبذول کرا سکیں چونکہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت سیاحتی مقامات کو خاص اہمیت دے رہی ہے اور ان مخصوص ٹورسٹ اسپاٹس میں چترال کا نام بھی قابل ذکر ہے ان کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے یہاں پہ کھیلوں کے مقابلے کا اعلان کرتی ہی اور یوں یہ مقابلے یکم اکتوبر سے قاقلشٹ اور زائنی ٹاپ کے مقامات پہ شروع ہو جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کی سیاحت اور نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی اور ایونٹس کے انعقاد کی اہمیت کے پیش نظر وفاقی وزیر پانی و بجلی جناب عمر ایوب خان ان کھیلوں کا افتتاح کرتے ہیں اور بارہ ہزار فٹ بلند زائنی ٹاپ(جس جگہ یہ کھیل منعقد ہوئے اس کو زائنی ٹاپ اور آگے پھر مقامات کے نام یہ ہیں شوردونیک،تریچ آن اور بریز وغیرہ جہاں پہ بھی مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے رہتے ہیں اور اس بحث میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ یہ زائنی ٹاپ ہے یا تریچ آان وغیرہ یہ سارے علاقے ہمارے ہیں اور ہم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں) پہ پیراگلائڈنگ سے خود بھی محظوظ ہوتے ہیں اور اس مقابلے میں ملک کے نامی گرامی پیرا گلائیڈرز اور چترال کے مقامی پیرا گلائیڈرز نے بھی اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا۔وفاقی وزیر جناب عمر ایوب خان اس علاقے کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے اس کو پیرا گلائیڈرز کیلئے جنت قرار دیا۔بونی اور موڑکہو کے باسیوں نے میزبانی کے بہترین فرائض انجام دئے اور اپنی روایات کو برقرار رکھا اور اپنے مہمانوں کو اپنی روایتی میزبانی اور خدمات سے ان کے دل۔جیتے۔ایونٹ کے آخر میں آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا گیا جو کہ چترال کی روایات میں شامل ہے جواور پہلے زمانے میں خاص مواقع پہ جلائی جاتی تھی(عیدین، رمضان وغیرہ کے مواقع پر) ۔
علاقہ موڑکہو کے باسی اس پر پی ٹی آئی حکومت کے دل سے مشکور ہیں اور پھر مشیر وزیر اعلٰی جناب وزیر زادہ صاحب دیر اید درست اید اس علاقے کا دورہ کرتے ہیں اور بڑے بڑے پراجیکٹس کا اعلان کرتے ہیں جس سے علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مزید مدد ملے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم اپر چترال انتظامیہ خصوصاً ڈی سی اپر چترال جناب محمد علی، اے سی مستوج، پولیس اور ٹی ایم اے اور پورے انتظامیہ نے اس ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لئے دن رات ایک کرکے اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
چونکہ وفاقی وزیر، جناب وزیر زادہ صاحب اور دوسرے حکومتی عہدیداروں نے اپنی آنکھوں سے یہاں کے افراد کے مسائل کا بغور جائزہ بھی لیا اور ان کو حل کرنے کے وعدے بھی کئے جن میں بنیادی طور پہ پانی اور خستہ حال روڈوں کے مسائل سر فہرست ہیں۔علاقہ موڑکہو کے پہاڑوں پہ نہ گلیشیئر کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی پانی کے دوسرے ذرائع موجود ہیں اور ہمارا پانی کا سارا دارومدار قدرتی چشموں سےہوتا ہے جو یہاں کے افراد کے ضروریات کو دیکھتے ہوئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی کہا جا سکتا ہے۔علاقے کے لوگوں کاارباب اختیار سے دو ہی بنیادی مطالبات ہیں کہ پانی کے مسئلے کو موت و حیات کا مسئلہ گردانتے ہوئے حل کریں ۔چونکہ یہاں کے باسی ماضی میں بھی اپنے علاقے کے معززین کے ساتھ کئی سال تک موڑکہو ،کوشٹ اور قاق لشٹ ایریگیشن چینل پہ کام کئے، ہمارے آباؑواجداد نےاپنے کدال بیلچے اور عزم و ہمت اور بلند حوصلے سے جو کام سر انجام دئے اور کئی کلومیٹر تک نہر کی تعمیر ممکن بنا سکے تھے اور اس وقت کے ایم این نے جناب شہزادہ محی الدین صاحب نے خطیر رقم بھی مختص کئے تھے لیکن مناسب پلاننگ کی فقدان اور جدید مشینری کی نا پیدگی کی وجہ سے یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی وہ بھی داد کے مستحق ٹھرے لہذا اس ایونٹ کے انعقاد کو اپنے لئے باد باران کا قطرہ سمجھتے ہوئے حکومت وقت سے بھر پور مطالبہ کرتے ہیں کہ بنیادی انسانی ضروریات کے پیش نظر خاطر خواہ رقم مختص کرکے اس مسئلے کو حل کریں اور موڑکہو کے باسیوں کا دیرینہ مطالبہ (موڑکہو،کوشٹ ،قاق لشٹ ایریگیشن چینل) کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور یہاں کی نسلیں نسلیں اس عظیم کام کو یاد رکھیں گے۔
اس ایریگیشن چینل کی تعمیر سے جہاں علاقہ موڑکہو (کوشٹ شنجور آن سے لیکرعلاقہ نشکو تک) کے لوگ مستفید ہو سکتے ہیں وہیں پہ اس سے دو سو میگاواٹ بجلی گھر،اور وسیع و عریض میدان قاق لشٹ جو تقریباً 9 کلومیٹر پر محیط ہے کو بھی آباد کرنے اس میں جدید طرز کے ہاءوسنگ سوسائٹی بنا کے عوام کو دینے سے ان کے مسائل حل ہو سکیں گے جو وقتاً فوقتاً سیلاب اور زلزلے سے متاثر ہو کر اپنے گھر بار سے محروم ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کو قابل کاشت لاکے ہزاروں ایکڑ پر محیط بنجر زمیں کو بھی زرخیز بنایا جا سکتا ہے جس سے علاقے میں مزید خوشحالی آئے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ رابطہ سڑکوں کی خستہ حالی بھی حکومت وقت کی توجہ کا متقاضی ہے اور اگر علاقہ موڑکہو کے یہ دو بنیادی مسائل حل ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جب موڑکہو کی زمیں اپنی زرخیزی کی وجہ سے پورے علاقے کو گندم کی فراہمی اور دوسرے فصلوں کی کاشت سے یہاں کے باسیوں اور علاقے سے باہر کے افراد کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اور اس علاقے کے زمیں کی زرخیزی کا ادراک محکمہ زراعت کے افراد کو بھی ہے اور وہ جا بجا اس کا اعلان بھی کرتے چلے آئے ہیں کہ اس علاقے کو اگر پانی وافر مقدار میں میسر آجائے یو یہ علاقہ پورے ضلع کے گندم اور باقی فصلوں کی کمی کو پورا کر سکتی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ موڑکہو کے عوام ایک دوسرے کے کندھا سے کندھا ملاتے ہوئے آگے آئیں اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے عملی جدوجہد کریں اور شاہ فورمین رئیس کی طرح اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف یہاں کے عوام اور علاقے کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ مبذول کریں یقیناً اس طرح متحد ہونے سے وہ وقت دور نہیں جب موڑکہو اپنے ماضی کے جھروکوں میں دوبارہ قدم رکھے اور ہر طرف ہریالی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو اور پولو،فٹ بال اور سیاحتی مقامات کی ترقی اور معدنی ذخائر (جو علاقہ کشم اور باقی علاقوں میں موجود ہیں) سے استفادہ حاصل کرکے علاقے کو خوشحالی کی راہ پہ گامزن کیا جا سکتا ہے اور پانی کے مسئلے کے حل سے یہاں کے مقامی افراد کے روزگار کا مسئلہ بھی حل کیاجا سکتا ہے۔

Advertisement
Back to top button