تعلیمکالم نگار

میٹرک انٹر کے امتحانات اور کویڈ-19

اشتیاق احمد

 

یہ دسمبر 2019 کی بات ہے جب میں اپنے گھر پہ حسب معمول شام سات بجے کی وائس آف امریکہ کی خبریں(جس کی خبروں کو مجھ جیسے ذہنی غلامی میں مبتلا شخص مستند تصور کرتے ہیں ) سن رہا ہوتا تھا تو ان دنوں انہیں خبروں میں چائینہ کے شہر وہان میں ایک مرض کی خبریں آتی رہیں جس کو شروع شروع میں تو نمونیہ کہا گیا اور اس کے کافی کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو گئے اور ہوتے ہوتے یہ وبائی شکل اختیار کر گیا اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور کروڑوں اس سے متاثر ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں زندگی کے باقی ایام ہسپتالوں کے وینٹیلیٹر پر پڑے آخری سانسیں لینے لگےاور آخر کار جنوری 2020 میں اس وبائی مرض کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔
انہی دنوں خبروں میں یہ باتیں بھی گردش کرتی رہیں اور موازنہ کیا جاتا رہا کہ کووڈ سے پہلے کی دنیا اس طرح کی تھی اور کووڈ کے بعد کی دنیا اس طرح کی ہو گی اور پھر اس کے اثرات ہم سب پر پڑے اور میڈیا نے اتنا خوف پھیلایا کہ ہم جیسے پسماندہ اور دور افتادہ علاقے میں رہنے والے لوگ بھی جب کسی رشتہ دار کے گھر آتے یا کوئی ملنے آ جاتا تو ان سے گلے ملنا اور ہاتھ ملانا تو دور کی بات ارتغل غازی ڈرامہ میں کائی قبیلہ کے افراد کی طرح احتراماً اپنا ہاتھ سینے پر رکھ کے اور سر کو ایک طرف جھٹکا دینے پر ہی اکتفا کرتے تھے ۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بھی،جن کی جی ڈی پی کروڑوں ڈالرز میں تھی وہ بھی لائنوں میں کھڑے ہوکر خیراتی اداروں سے ملنے والے امداد اور کھانا وصول کرنے لگے پھر دنیا کی بڑی بڑی معیشتیوں پر بھی لرزہ طاری ہو گیا اور جی ڈی پی بہت ہی نیچے لیول تک آگیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب عالمی منڈی میں پٹرول جیسے گوہر نایاب چیز کو لینے والا میسر نہیں آیا ۔
اس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک پہ بھی پڑے اور بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے، ہمارے تعلیمی نظام، معیشت اور ہر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور ہمارے ملک میں چونکہ غربت بہت ہی زیادہ ہے یہاں کے لوگ محنت مزدوری ، چھوٹے موٹے کاروبار اور ملازمت کے ذریعے اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔لاک ڈائون اور دوسری حکومتی پابندیوں کے باعث معیشت، تعلیمی ادارے سب اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ،غریب لوگوں کے لئے زندگی گزارنا محال ہو گیا۔ حکومت نے اس کے ادراک کے لئے "احساس پروگرام "کے تحت مالی طور پر لوگوں کے ساتھ امداد کی لیکن یہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی پھر بھی حکومت کے اس اقدام سے وقتی طور پر کم ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ ریلیف لوگوں کو ضرور حاصل ہوا۔
تعلیمی ادارے اس وباء کے دنوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور کووڈ کے پھیلنے کے خوف سے حکومت کو بار بار ان تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا اور کچھ تعلیمی اداروں نے آن لائن کلاسز اور آن لائن ایگزامز کا اجراء کیا لیکن چترال کی طرح ملک کے باقی علاقوں میں بھی لوگ اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کر سکے کیونکہ یہاں کے کچھ علاقوں میں 2Gسروس موجود ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز لینا تو دور کی بات ایک Mbs والا میسج بھی بھیجنا مشکل ہو جاتا ہے اور جہاں 4G سروس موجود تھی وہاں نیٹ ورک اتنا خراب ہے کہ گھنٹوں گھنٹوں ایک فائل بندہ نہیں بھیج سکتا اور آن کلاسز کے چکروں میں کچھ طلبہ کو بجلی کے کھمبوں پہ بھی چڑھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کیا پتہ وہاں سگنلز صحیح طرح کام کر رہے ہوں۔
جب امتحانات کی باری آئی (خاص کر میٹرک اور انٹر کی) تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ ان طلبہ کو اگلی کلاسز میں پروموٹ کیا جائے گا ۔
آب آتے ہیں حالیہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کی طرف جن کے نتائج کا اعلان کچھ دن پہلے کیا جا چکا جس کے مطابق تقریباً 90% طلبہ نے 1100 میں سے 1050 سے زائد نمبر لئے ہیں جو ان طالب علموں کے ساتھ ساتھ باقی کلاسز کے طالب علموں کے لئے بھی حیرانگی کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ باوجود تعلیمی اداروں کے مسلسل بند رہںنے کے اتنے نمبرز آنا کسی معجزے سے بالکل کم نہیں ہے۔
اس کے دو پہلو ہیں اول وہ طالب علم جنھوں نے اتنے زیادہ نمبرز لئے ہوں ان کے اندر ایک نیا جوش ولولہ اور جذبہ پیدا ہو گا اور آگے جا کے یہ نمبرز ان کے بہت کام آئیں گے کیونکہ ہر مقابلے کے امتحانات میں ان کلاسز کے نمبرز کی خاصی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اندر مزید پڑھنے مزید محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن پیدا ہو جائے گا اور وہ طالب علم جو دس دس گھنٹے گھر جا کر امتحان کی تیاری کرتے تھے وہ ہو سکتا ہے کہ اس کو مزید بڑھا کر بارہ گھنٹے تک لے جائیں اور مزید ان کے اندر محنت کرنے کی لگن پیدا ہوجائے اور جستجو پیدا ہو جائے اور دوسری طرف جن طالب علموں کے نمبرز کم آئے ہیں ان میں احساس محرومی پیدا ہو جائے گی اور مزید ڈپریشن کا شکار ہونگے ہو سکتا ہےانہوں نے محنت کی ہو لیکن اس کا صلہ نمبرز کی صورت میں ان کے سامنے نہ آئی ہو وہ مزید ٹینشن کا شکار ہو سکتے ہیں اور دوسرے سٹوڈنٹس کے زیادہ نمبرز دیکھ کے احساس محرومی ان کو کسی اور طرف بھی لے جا سکتی ہے جس کا آخری نتیجہ خود کشی کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے ہے لیکن ان طالب علموں سے یہی گزارش ہےکہ”گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں” کے مصداق ان کو چنداں پریشان اور ڈپریشن کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک امتحان تو واقعی تھے لیکن آخری امتحان تو نہیں تھے نا،اور ان کوبہت مواقع زندگی میں آئیں گے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں اور بہت مراحل ان کے سامنے آئیں گے جہاں وہ محنت کا پھل ضرور کھا سکیں گے کیونکہ یہ میرے اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی کا وعدہ ہے (لیس للانسان الا ما سعٰی ۔القرآن) کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ محنت کرتا ہے کا عملی نمونہ بن کے بہت آگے جا سکتے ہیں اور باقی امتحانات میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اپنے اور اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں لہذا ان کو کم نمبرز آنے کی وجہ سے بالکل بے فکر ہوکر آگے بڑھنا چاہئے۔جو طالب علم 1050 سے زیادہ نمبر لے کر کامیاب ہوئے ہیں ان کو خود ہی اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا وہ اس کے حقدار تھے بھی یا نہیں یا صرف خانہ پری کے لئے ان کے ساتھ یہ رویہ روا رکھا گیا اور زندگی میں آگے جا کر مختلف مقابلوں کا سامنا اور مختلف امتحانات میں Appear ہونا ہے آیا وہ ان امتحانات میں بھی اس طرح کے نمبرز حاصل کرسکیں گے؟اور مطلوبہ نتائج نہ آنے پہ ان کی تعلیم اور ذہن پہ قس کے کیا اثرات مرتب ہو سکیں گے؟ کیونکہ یہ تو صرف ایک ہی امتحان تھا اور "آگے عشق کے امتحان اور بھی ہیں” کے مصداق آیا وہ ان میں بھی Outstanding پوزیشن لے سکیں گے یا قسمت کی دیوی صرف اس بار ہی ان پہ مہربان ہوئی ہے ہو سکتا ہے یہ امتحان ان کے جذبات محنت اور لگن کو اور زیادہ مہمیز دے اور ان کے اندر اس سے ڈبل محنت کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے۔
آب آتےہیں BISE پشاور نے اتنے نمبرز دے کر صحیح کیا یا غلط کیا اس بارے میں رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس فیصلے سے طالب علموں کے ذہنوں پر کتنے دوررس نتائج مرتب ہوئے ہونگے اور میں تو کم از کم اس پر کوئی بھی رائے دینے سے قاصر ہوں۔
آخر میں اتنی گزارش ہے کہ مدارس اپنے محدود وسائل”اور اپنی مدد آپ کے تحت اور کچھ مخیر حضرات کے تعاون سے چل رہے ہیں جنھون نے کووڈ 19 کے دنوں میں بھی ایس او پیز پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پورے ملک میں لاکھوں طالب علموں سے امتحان لے سکتے ہیں اور ان کے امتحانات مختلف مراکز میں منعقد کرواسکتے ہیں (اور ان مدارس کے ان امتحانات پہ ایک بھی طالب علم ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا جو ان امتحانات کی شفافیت پہ انگلی اٹھا سکےاور اس اقدام پر مدارس کی انتظامیہ داد کے مستحق ہیں)تو ہماری حکومت بھی سینٹرز اور امتحانات کی نگرانی کرنے والے اساتذہ کرام کی تعداد بڑھا کر یہ تمام امتحانات صاف وشفاف طریقے سے منعقد کرواسکتی تھی کیونکہ حکومت کے پاس وسائل کی اتنی بھی کمی نہیں ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے کی طرف توجہ نہ دے سکے اس پر تو صرف بین ہی کیا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں کیونکہ حکومت کے سامنے اور بھی چیلنجز درپیش ہیں تو ہو سکتا ہے وہ چیلنجز ان سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوں اور اسی لئے ان امتحانات پہ توجہ نہ دی گئی اور صرف چار پیپرز کا امتحان لینے پر ہی اکتفا کیا گیا۔

Advertisement
Back to top button