نیا اضافہ

ایک انوکھا ہار

اشتیاق احمد

ایک انوکھا ہار

یوں تو ساری دنیا میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے چاہے وہ کھیل ہو یا سیاست یا زندگی کا کوئی اور شعبہ ہار جیت اس کا حصہ ہے اور اس کھیل اور مقابلے میں ہارنے والا یا تو دل برداشتہ ہو کر اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے یا تو اپنی ہار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتا ہےیاآخر میں دل۔برداشتہ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی ہار کا بین کر رہا ہوتا ہےلیکن اس دفعہ چترال بازار کی صدارت کے لئے منعقدہ الیکشن جو ٦ ستمبر کو منعقد ہوئے اس میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کو داد دئے بغیر دل کو سکون اور قرار نہیں ملتا۔

اول تو میں اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتا کہ سابق چترال بازار کے صدر اور کابینہ کی مدت ختم ہو گئی تھی یا توسیع دی گئی تھی کا اس میں توسیع کی ضرورت تھی یہ سرے سے میری تحریر کا حصہ ہی نہیں ہے میں تو اس چیز کو داد دے رہا ہوں جو اس الیکشن میں چارویلو نور احمد نے ادا کیا۔

کووڈ 19 کی آئے روز بگڑتی صورتحال کو دیکھ کر چترال انتظامیہ نے الیکشن کے انعقاد کی اجازت ہی نہیں دی تھی لیکن چترال پولیس اور چترال کے صحافی برادری نے جس احسن اور شفاف طریقے سے اس کا انعقاد ڈور ٹو ڈور جا کر کامیاب کرایا وہ حد سے زیادہ قابل تحسین ہے۔

اس الیکشن میں دو نامزد امیدوار میدان میں تھے ایک طرف بشیر احمد صاحب اور دوسری طرف نور احمد چارویلو الیکشن میں مد مقابل تھے جس کے نتیجے میں بشیر احمد صاحب نے 1900 سے زیادہ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اور چارویلو کے حصے میں 1500 سے زیادہ ووٹ آئے۔دونوں طرف نہایت ہی اعلٰی قابل اور خدمت کے جذبے سے سرشار افراد میدان میں اترے تھے لیکن ظاہر ہے جیت ایک ہی پینل کح حصے میں آتی ہے جس کے نتیجے میں بشیر احمد جیت گئے اور نور احمد چارویلو بجائے اپنی ہار سے دک برداشتہ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جانے کے چارویلو نے اپنی روایات ،خاندانی شرافت اور جمہوریت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ہار کو تہہ دل سے قبول کرتے ہوئے جیتنے والے صدر کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کا اعلان بھی کیا اور نو منتخب صدر کے جیتنے والے منعقدہ پروگرام میں بھی شریک رہے۔

جیت جانے والے صدر کی خوشی کی تقریب کے موقع پر موجود افراد سے اپنے خطاب میں چارویلو نور احمد نے نہ الیکشن کی شفافیت پہ انگلی اٹھائی اور نہ اپنی ہار کو تسلیم نہ۔کرنے کے رٹ کو رٹایا بلکہ تہہ دل۔سے اپنے ووٹرز جنھوں نے ان کو ووٹ کاسٹ کئے ان کا بھی اور باقیوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور جیتنے والے سیٹ آپ اور صدر کے شانہ بشانہ بازار اور تاجر برادری کے مسائل حل کرنے کا بھی بھرپور اعادہ کیا۔اس موقع پر چارویلو نور احمد نے جو روایت قائم کی وہ تا دیر قائم رہے گی۔

ہم۔سب کو چارویلو کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اپنی زندگی میں اس کو مشعل راہ بنانے چاہئے کیونکہ یہ ہار اور جیت چند دنوں کی ہے لیکن قابل۔تحسین روایات، انسانیت اور چترالیت باقی رہنی چاہئے چاہے وہ کھیل کا۔میدان ہو یا سیاست کا اور یا دنیا کی کسی اور شعبے کے مقابلے کی دوڑ دوسروں کوبجائے نیچے دکھانے اور ٹانگیں کھینچنے کے اپنی پرانے آبائو اجداد کی روایت اور شرافت کو دامن سے نہ چھوٹنے دینا چاہئے اور اسی طرح ہی۔ہم۔آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہمارا علاقہ اور۔ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے اور یہ تب ہی ممکن ہےجب اپنی اختلافات کو ایک سائیڈ پہ کرکے یہاں کے عوام کے مفاد میں سوچنا شروع کریں گے اور ایک دوسرے کا دست بازو بن کے عوام اور اپنے علاقے کی ترقی اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔

آخرمیں ایک بار پھر 

چترال پولیس خصوصاً ایس پی سونیہ شمروز صاحبہ اور ان کے ماتحت چترال پولیس کے جوانوں نے جس احسن طریقے سے کورونا ایس او پیز پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے احسن طریقے سے اس کو منطقی انجام تک پہنچایا یہ بھی قابل تحسین ہے اور ان۔کے ساتھ ساتھ چترال پریس کلب کے صدر اور معروف صحافی جناب ظہیر الدین صاحب اپنی پوری کابینہ کو۔لے کر پولیس کے جوانوں کے ساتھ آخر تک اس کو کوریج دی یہ اور بطور ملک کے چوتھا ستون ہونے کا بھی عملی طور۔ثبوت دیا۔

صحافی برادری کی موجودگی میں اور باوجود اپنی گوناگوں مصروفیات کے پوری صحافی برادری نے اس کو شفاف بنانے میں آہم کردار ادا کیا اور اس الیکشن کی شفافیت کو کسی نے بھی کسی بھی سطح پہ چیلنج نہیں کیا جو شاید پہلے کبھی اس طرح منعقد ہوئے ہوں جو دونوں امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ہر ایک دکان پہ جا کے ووٹ کاسٹ کروایا اور جس کی شفافیت پہ ہارنے والے بھی انگلی نہیں اٹھا سکے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button