اپر چترالخبریںسیاست

پی ٹی آئی اپر چترال کی رسہ کشی

خالد محمود ساحر

 

الیکشن کے دنوں میں کسی پارٹی کا پوری زور کے ساتھ ابھرنا یا پلک جھپکنے میں اپنی مقبولیت کھو دیا شاید پاکستان میں ہی ممکن ہے.
دوہزار سولہ, سترہ تک پاکستان تحریک انصاف پوری مقبولیت کیساتھ پاکستان میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر آئی. چترال کی سیاست جو اب تک چند ایک سیاسی شخصیات کی باندھی تھی پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو قبول کرچکی تھی.

الیکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف اپر چترال کو ایک الگ ضلعے کا درجہ دے کر اپنا آخری پتہ پھینک چکا تھا جو الیکشن میں پارٹی کی جیت کا ضامن بن سکتا تھا.چند ایک وجوہات کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف چترال کی سیٹ حاصل کرنے میں ناکامیاب رہی جن کا ذکر یہاں مقصود نہیں لیکن الیکش کے بعد جیتی ہوئی جماعت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے پاکستان تحریک انصاف چترال ایک مضبوط اپوزیشن بن چکی تھی.

بہترین اپوزیش ایک کمزور حکومت سے بھی کام نکلوا سکتی ہے لیکن یہاں ایک مضبوط پارٹی کمزور اپوزیشن کو مزید کمزور دکھانے میں اس قدر مشعول رہتی ہے کہ اس کی اپنی کمزوریاں عیاں ہوجاتی ہیں. اپوزیشن کو ماضی و مستقبل کا آئینہ دکھاتے دکھاتے خود پارٹی کا حال آئینے میں دیکھنے قابل نہیں رہتا.

الیکش کے بعد اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کے لئے ایک بہترین ضلعی کابینہ کی تشکیل ایک عوامی اور جمہوری پارٹی کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھی لیکن پاکستان تحریک انصاف اس میں بھی پارٹی ورکروں کو یکجا کرنے میں ناکامیاب رہی.ایک سیاسی جماعت جو تمام ورکروں کا ترجمان تھی اپنے ورکروں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہوئی. تحصیل مستوج کی کابینہ کو لیکر دیر تک سیاسی رہمناؤں میں چپقلش رہی جو پارٹی کو بظاہر تین حصوں میں تقسیم کرتی نظر آئی. ان تین فریقوں نے خلیج پُر کرنے کی کئی کوششیں کیں لیکن کوئی بھی اپنی موقف سے ذرہ برابر ہٹ کر سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہوا.

چترال میں جو پارٹیاں اب تک جیتتی آئی ہیں ان میں قد آور شخصیات اور مذہبی پارٹیاں ہی شامل ہیں.ان قد آور شخصیات کو کبھی اپنی پارٹی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا ساتھ ہی عوامی مقبولیت اور دوسری پارٹیوں سے گٹ جوڑ ان کی جیت کا باعث بنی. مذہبی پارٹیاں ایسے دستور کا پابند ہیں جو انہیں سوال و جواب کی اجازت نہیں دیتا. یعنی چترال کی سیاسی تاریخ میں ابھرنے والی پاکستان تحریک انصاف وہ پہلی سیاسی پارٹی ہے جو عوامی پارٹی کہلاتی ہے اور ورکروں کی بالادستی کا دعوی کرتی ہے.

پشاور میں شکست کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ٹکٹ کی تقسیم میں سیاسی رہنماؤں کی غیر جمہوری طریقہ کار کو پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرا کر تمام تر گورننگ باڈیز تحلیل کردی اور صوبائی و وفاقی قیادت کی زیر بندوبست دوبارہ کابینہ سازی کا حکم دیا جو تمام تر ورکروں کی ترجمانی کرے گی.

کل پاکستان تحریک انصاف چترال کی آفیشل پیج میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق صوبائی قیادت نے اپر چترال کے لئے کوارڈنیشن کمیٹی کی منظوری دیدی ہے. کمیٹی میں اپر چترال سے سابق صدر رحمت غازی, معراج الدین, حبیب علی شاہ, فرید اللہ, جمیل اللہ شیرازی اور فضل الدین جوش شامل ہیں.

ٹکٹ کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ورکروں میں خلیج کو ختم کرنا,پارٹی رہمناؤں کی آپسی چپقلش کو دور کرنا اور دوبارہ کابینہ سازی پر کام کرنا اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں. ان تمام تر معاملات کو غیر جانبداری جمہوری اور چترالی روایتی سیاست کے برعکس جاکر ورکروں کی نمائندگی کو یقینی بناتے ہوئے فیصلہ کرنا اس کوارڈنیش کمیٹی کے لئے ایک بڑا چیلینج ہے.

ضلعی و تحصیل کابینہ کے عہدوں کی تقسیم کے وقت جو حالات تھے اور اس وقت پارٹی قائدیں نے جو غلطیاں کی تھیں وہ غلطیاں اب بھی دھرائی جارہی ہیں. پارٹی کی اپنی شاخیں اس کی جھکاؤں کاسبب بن رہی ہیں.
کہیں یوتھ ونگ کی طرف سے کسی کی حمایت میں قرارداد سامنے آتی ہے تو کہیں انصاف اسٹوڈنٹس ایسوسئیشن کی طرف سے کسی کی حمایت کا جھنڈا اٹھایا جاتا ہے. ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں کہیں احتجاج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں تو کہیں آزاد امیدوار لانے کا عندیہ دیا جارہا ہے.

ایسی صورتحال میں پارٹی کو منظم رکھنا اور متوقع بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن کے خلاف ایک طاقت کے طور پر پارٹی کو دوبارہ ابھارنا کوارڈنیش کمیٹی کے لئے جوئے شیر لانا ہے.

(پہلا حصہ)

Advertisement
Back to top button