تعلیمٹیکنالوجیخبریں

آغا خان ایجوکیشنل سروس چترال ، کل اور آج

کریم اللہ

آغا خان ایجوکیشنل سروس گزشتہ کم و بیش ایک صدی سے زائد عرصے سے تعلیم کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں یہ ادارہ 1946ء کے بعد آیا اور وہاں ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کا جھال بچھا دیا گیا جس کے باعث آج ہم گلگت بلتستان بالخصوص ہنزہ میں تعلیمی و ترقی کا انقلاب دیکھ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے چترال کے حکمرانوں نے ڈائمند جوبلی سکولوں کو یہاں قائم ہونے نہیں دیا جس کا خمیازہ جہالت کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں ۔ البتہ 1980ء کے بعد چترال میں اے کے ای ایس باقاعدہ طور پر منظم انداز سے سکولوں کا جھال بچھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں تعلیم بالخصوص خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ ہوا۔ چونکہ شروع میں اے کے ای ایس صرف خواتین کو تعلیم دے رہے ہیں اسی لئے انہی اداروں کے فارع التحصیل لڑکیاں صحت و تعلیم اور دوسرے شعبوں کا انتخاب کرکے خدمات سرانجام دے دینے لگیں۔ 

اے کے ای ایس چترال کی سطح پر معیاری انداز سے اس وقت ابھرنا شروع کیا جب بریگیڈئیر ریٹائر خوش محمد کو اس کا جنرل منیجر بنایا گیا ۔ اس وقت تک اے کے ای ایس میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی آپ کو نظر نہیں آتی مگر خوش محمد کے آنے کے بعد جگہ جگہ نئے سکول قائم ہوئے اور جو سکول کمیونٹی کے اشتراک سے چل رہے تھے انہیں مکمل طور پر اے کے ای ایس کے حوالے کردیا گیا یہ اے کے ای ایس پر کمیونٹی کا اعتماد تھا ۔ یوں معیار کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اے کے ای ایس کے اندر بہت ساری خامیاں ہونگی بہت سارے مسائل ہونگے مگر ان سب کے باؤجود آج اے کے ای ایس ایک معیار کا نام ہے ۔ اور سال روان میں جو بڑی تعداد میں یہاں کی فارع التحصیل لڑکیاں ایم بی بی ایس کے ٹسٹ پاس کئے یہ اسی سسٹم کی مرہون منت ہے ۔ 

آج بروغل جیسے دور افتادہ و پسماندہ ترین وادی میں بھی اے کے ای ایس معیاری تعلیم دے رہے ہیں اور آرکاری و گرم چشمہ کے علاقوں میں تو کب سے یہ سلسلہ جاری تھا۔

 بلاشبہ اس ترقی اور انقلاب کا کریڈٹ ہمیں اے کے ای ایس کے لیڈر شپ کو بھی دینا ہوگا کہ ان کی کوششوں سے یہ سب کچھ ممکن بنا ۔ اے کے ای ایس نہ صرف تعلیمی لحاظ سے ایک معیار ہے بلکہ اس کے انفراسٹریکچر وغیرہ بھی معیار کا نمونہ ہے ، اور بچوں و بچیوں کی تربیت بھی ایک معیار ہے ۔ اسی لئے آج ہم تعلیمی نظام کی اس تباہ حال دور میں اپنے بچوں و بچیوں کے لئے اے کے ای ایس ہی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہے ، کیونکہ بہر حال گورنمنٹ نے تعلیمی پالیسی کے نام پر نظام تعلیم کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے اور اب سرکاری سکولوں میں بچوں و بچیوں کو بھیجنا ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ، اسی لئے ہمارے سامنے اے کے ای ایس کے علاوہ او رکوئی اپشن نہیں۔

اے کے ای ایس کے ملازمین بالخصوص ٹیچرز کے سروس اسٹریکچر کے حوالے سے کافی خامیاں موجود ہے جس پر اگلی قسط میں بات کریں گے اور پھر بحیثیت مجموعی ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے اس پر بھی لکھنے کی کوشش کریں گے ۔

Advertisement
Back to top button