تعلیمخواتین کا صفحہ

گندی مچھلی اور تالاب

فریدہ سلطانہ فری

فری نامہ

 

پہلا حصہ
ہرمعاشرہ اپنے اقداروروایا ت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہےاوریہ اقدارمختلف خوبیوں و خامیوں پرمشتمل ہوتے ہیں ان میں اتارچڑھاو بھی ایک فطری عمل ہےدانشور کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اورتنزلی کا دارومداراس بات پرہوتا ہےکہ اس معاشرے کے لوگوں کی سوچ اورانکا رویہ معاشرہ اوراس میں بسنے والے لوگوں کے حوالے سے کیسا ہے۔ اس اعتبار سےمجموعی طور پردیکھآ جاَئے تواخلاقی بگاڑ اور تنزلی ہمارے معاشرے کے ہرشعبے اورزندگی کے ہرحصے میں داخل ہوچکی ہے۔ہرکوئی اجتماعی بہبود سے نکل کرذاتی مفاد وتسکین اورخود پرستی تک محدود ہوچکا ہے۔ تعلیم کا میدان ہو یا سیاست، صحت کا شعبہ ہو یا قانون غرض ہرجگہ اپ کو منافقت،بے ایمانی ،چوری اور بد دیانتی کا بازار گرم ہی ملے گا یہاں تک کہ مساجد سے باہرلوگوں کے جوتے،کولر کے ساتھ پانی کا گلاس اور سب سے اہم ہمارے اپنے گلی محلوں اور درس گاہوں میں ہمارے بچے اوربچیاں ہی محفوظ نہیں تو کیا ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ یہاں عورت کھلی فضا میں محفوظ رہے اسی وجہ سے عورتوں کوبھی چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات ،اپنے اقدارو روایات کی پاسداری کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں شامل ہوجائے تاکہ کسی بھی ناگہانی حادثات سے محفوظ رہ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مگرہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ معاشرہ سارے کا سارا خراب ہے یا لوگ سارے ہی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوچکے ہیں جہاں اخلاقی زوال کا شکار لوگ موجود ہیں وہاں اپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گیں جواپنی اچھی تربیت کی بنا پراپنے ارد گرد کے ماحول کو سنوارنے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہوتےہیں۔مگرافسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر شعبے میں کچھ بد کردارعناصرکی وجہ سے اچھے لوگ بھی اس زد میں آجاتے ہیں اوریوں اچھے لوگوں کی اچھاِئی بھی بدکردار لوگوں کی برائی تلے دب جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس اس کی بہت ساری مثالیں ہیں گننے بیٹھ جاوں تو شا ئد وقت کم پڑ جائے ان میں سے حال ہی میں جج کے ہاتھوں خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کوگندہ کردیتی ہے۔ جب قانون کے رکھوالے اورظلم زیادتیوں کے خلاف فیصلہ سازی کرنے والے ہی بیھڑیوں کی شکل اختیار کرکےعورتوں کو نوچنے لگے تو لوگ انصاف کی بھیگ کس سے مانگے اور اپنی روداد لیکرکس در پر دستک دیں ۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں؟
بات یہ نہیں کہ وہ کس علا قے کی تھی بات تو یہ ہے کہ عورت تھی اورقانون کے رکھوالے کے ہاتھوں درندگی کا شکار ہوگئی اب سوال یہ ہے کہ اگر قانون کے محافظ کے ہاتھوں عورت محفوظ نہیں تو کیا موٹر وے،مارکیٹ ، دفاتر، سسرال یا دوسری ضرورت کی جگہوں پرعام لوگوں کے ہاتھوں محفوظ رہ سکتی ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

Advertisement
Back to top button