اپر چترالتاریخ اور ادب

ڈام چپاڑی میں موجود قدیم وزنی پتھر کی حقیقت۔

حمید الرحمن حقی

چترال کے قدیم مقامی کھیلوں کے بڑے بڑے مقابلوں میں نشانہ بازی، تیر اندازی، کبڈی، ،دوڑ، رسہ کشی،ویٹ لفٹنگ، تیراکی،بُڈی(ایک خاص مقامی کھیل) اور پولو وغیرہ بہت ہی مشہور ہیں جن میں سے چند اک کھیلوں کے مقابلے اج بھی چترال کے اکثر بالائی اور زیریں علاقوں میں مختلف تقاریب، مقامی تہواروں اور کسی خاص مہمانوں کی آمد کے مواقع پر منعقد کیے جاتے ہیں،تاہم مذکورہ مقامی کھیلوں کے مقابلوں میں سے چند اک کھیل یا تو بلکل ناپید و متروک ہو چکے ہیں یا کہیں کہیں بہت ہی کم تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں. ان متروک و ناپید شدہ مقامی مقابلوں میں ایک” پاور ویٹ لفٹنگ "یا وزن اٹھانے کا مقابلہ بھی ہے جوکہ تقریبا کئی دہائیوں سے چترال کے اکثر علاقوں میں مہمانوں کی آمد، مختلف تہواروں کے موقعوں پر بادشاہوں کی خصوصی ہدایات کے مطابق نہایت جوش وخروش کیساتھ منعقد کیے جاتے تھے، اور ساتھ مقابلے میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑی اور پہلوانوں کو بادشاہ اور مہتران وقت کیطرف سے انعام و اکرام سے بھی نوازے جاتے تھے..اسکے علاوہ جیتنے والے کھلاڑی کو بحیثیت پہلوان کسی خاص درباری منصب و عہدے سے نوازنے کیساتھ کسی خاص شاہی ٹائٹل سے بھی نوازا جاتا تھا…تاہم وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کچھ نامعلوم وجوہات اور حکومت وقت کی عدم توجہی کے باعث یہ کھیل اب پورے چترال میں تقریبا ختم ہو چکا ہے،جو آسر نو شاید ہی کبھی زندہ ہو…

زیر نظر تصویر اس قدیم کھیل کی بطور نشانی آج بھی چترال کے دور افتادہ گاوں چپاڑی میں تقریبا 200 یا دو سو پچاس کلو کے لگ بھگ وزن کے حامل بلکل ایک گول پتھر کی صورت میں موجود ہے. کہا جاتا ہے کہ مذکورہ پتھر بابا سلطنت خان جوکہ معروف پہلوان اور حاکم چپاڑی تھے، کی خصوصی دلچسپی اور مہتر گوہر آمان کی خصوصی ہدایت پر یاسین گلگت کے کسی علاقے سے بڑی مشکل و مشقت کے بعد قلعہ چپاڑی (ڈام) پہنچایاگیا تھا.. اور پہنچانے والے پہلوان اور جوانوں کو خصوصی انعامات سے نوازنے کیساتھ وقتا فوقتا ان پہلوانوں اور جوانوں کو بلاکر دوسرے مختلف جوانوں کو ٹریننگ دینے کیساتھ بڑے بڑے مقابلوں کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا…. اس مقابلے اور پتھر کی خاص خصوصیت یہ کہ مذکورہ پتھر بلکل گول ہونے کیوجہ سے ایک تو پکڑنے کیلیے خاص مشکل ہے اور ساتھ اٹھانے کیلیے بازوں اور بدن کی طاقت سے ذیادہ ہاتھ اور ہاتھ کے انگلیوں پر ذیادہ زور پڑتا ہے، جوکہ خاص ٹریننگ اور تیکنیک کے بغیر ممکن نہیں.جبکہ جیتنے کیلیے مزکورہ وزن کو سینہ برابر اٹھانے کے بعد سات قدم اگے یا پیچھے لے جانا بھی ضروری ہے، جوکہ نہایت مشکل عمل ہے، اور خاص کر موجودہ برگر جوانوں کیلیے نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن سا عمل ہے…… 

البتہ موجودہ نسل میں سوال الرحمن (کارگین) اور جماعت علی(کھوژ) ہی دو ایسے جوان ہیں جنہوں نے اپنی جوانی میں مذکورہ وزن کو قواعد وضوابط کے عین مطابق اٹھانے اور سات قدم تک آگے لے جانے میں کامیاب ہوے ہیں…..

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button