اپر چترالتعلیم

تعلیمی نو سربازوں سے ہوشیار رہیں۔۔۔

اکبر حسین

 

ہمارے پیارے پاکستان کے اندر تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی میں مافیاز لوگوں کی حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرکے ناجائز طریقے سے دولت ہتھیانے میں مصروف ہیں۔ شکر مافیا ہو کہ ٹمبر مافیا یا پھر رییل سٹیٹ سے منسلک لٹیرے سب ہی عوام کی انفرادی و اجتماعی جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرنے کی گویا قسم کھائی ہے۔
عوام کی غیر قانونی پراپرٹی ڈیلرز کے ہتھے چڑھنے کے قصے تو روز ہی سماجی یا برقی ذرائع ابلاغ کی توسط سے سننے کو ملتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں دو نمبر کی ادویات اور عطائی معالجین کا چرچا بھی زبان زد عام ہے۔ عرض زندگی کے ہر شعبے میں ہم دو نمبری کرنے والے مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ اس شہر نا پرساں میں ہمارا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ریاست کی اولین ذمے داری لوگوں کے جان ومال اور عزت و آبرو کی تحفظ ہے لیکن بد قسمتی سے مافیاز جب طاقتور ہو جاتے ہیں تو وہ ریاست کی آئین و قانون کو بھی جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں یا پھر ان کو بھی لالچ دے کر اپنی سیاہ کاریوں میں شریک بناتے ہیں۔
تعلیم کا شعبہ بھی جعل سازی سے محفوظ نہیں رہا۔ ملک کے طول و عرض میں نجی تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ نجی شعبہ بنیادی و ثانوی تعلیم سے لے کر اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیم کی فراہمی میں بلاشبہ بہت بڑا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن کالے بھیڑیے اس میں بھی کب کا گھسے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین بظاہر تو چونکا دینے والی لیکن کسی حد تک حسب توقع خبر یہ آئی ہے کہ ملک کے اندر 147 جعلی تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں یونیورسٹیز، کالجز اور کچھ فنی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان جعلی اداروں کی فہرست اپنی ویب سائٹ پر چڑھا دی ہے۔ اس فہرست میں پنجاب کے 96, سندھ میں 35, خیبرپختونخوا کے 11 ، آزاد کشمیر کے 3 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود دو ادارے شامل ہیں۔
وہ خواتین و حضرات جو اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کے متمنی ہیں یا تعلیم حاصل کرنے والے بچے بچیاں خود بھی ایسے تعلیمی نوسر بازوں سے ہوشیار رہیں۔ کسی تعلیمی ادارے کا انتخاب کرتے وقت اس کی قانونی حیثیت کا ضرور خیال رکھیں تاکہ ماں باپ کی جمع پونجی اور اپنا قیمتی مستقبل محفوظ ہو سکیں۔

Advertisement
Back to top button