تعلیمچترالیوں کی کامیابی

سی ایس ایس کے مراحل،،،

عمران الحق

 

ہر وہ شخص جو پاکستانی ہو جسکی عمر اکیس سے تیس سال کے درمیان اور تعلیم بی اے (کم از کم سیکنڈ ڈویژن) ہو، سی ایس ایس کےلئے درخواست دے سکتا ہے۔ درخواست فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت ہر سال اکتوبر کے مہینے میں دئے جاتے ہیں اوراس کے بعدامیدوار کومختلف مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے اسکریننگ ٹیسٹ ہوتی ہے، جس میں دو سو سوال MCQs پوچھے جاتے ہیں ، جو امیدوار تینتیس فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کریں وہ اگلے مرحلے کیلئے اہل تصور ہوتا ہے۔
اگلا مرحلہ تحریری امتحان کا ہوتا ہے جس میں بارہ پرچے ہوتے ہیں اور ہر پرچے کے کل نمبر سو، یعنی امیدوار بارہ سو نمبروں کے تحریری امتحان سے گزرتا ہے ۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کیلئے ہر پرچے میں الگ الگ پاس ہونے کے ساتھ کل پچاس فیصد نمبر لینے ہوتے ہیں۔ اس میں کامیاب ہونے کے بعد اگلا مرحلہ انٹرویو کا ہوتا ہے ۔ یہ مرحلہ مزید تیں مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، پہلے دو نفسیاتی انٹرویو کہلاتے جب کہ تیسرا ایک جامع انٹرویو ہوتا ہے جس میں امیدوار چیرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دوسرے اکابر ممبران کے سامنے پیش ہوتا ہے جو متفرق سوالوں سے امیدوار کی قابلیت کو جانچتے ہیں۔ انٹرویو کے ان تین مراحل کے مجموعی تین سو نمبر ہوتے ہیں جو گزشتہ نمبروں (یعنی تحریری امتحاں کے بارہ سو) کےاوپر جمع ہوتے ہیں اور یوں اس مرحلے کے اختتام پر امیدواروں کا پندرہ سو میں سے ایک میرٹ لسٹ بنتی ہے۔ جو اس لسٹ میں جتنا اوپر آتا ہے اس کو من پسند گروپ ملنے میں اتنی اسانی ہو تی ہے۔ یعنی جو امیدوار پاکستان ایڈمنسٹریٹیو گروپ میں جانا چاہتا یا پھر پولیس سروس میں ، تو اس حساب سے میرٹ میں پوزیشن ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔
کل بارہ گروپ یا سروسز ہیں جن میں امیدوار نامزد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد تما م سروسز کے نامزد امیدواراں سول سروسز اکیڈمی لاہور میں ٹریننگ کیلئے جمع ہوتے اور چار سے چھ مہینے ایک ساتھ گزارتے ہیں، جس کو کامن ٹریننگ پروگرام کہا جاتا ہے۔ اس مدت میں ہر وہ سرگرمی جو اکیڈمی اپ کیلئے مختص کرتی اس کے مخصوص نمبر ہوتے ہیں۔ کتاب پڑھی تو بک ریڈنگ کے نمبر ، کھیل میں حصہ لیا تو اس کے نمبر، کوئی کب جیتا تو اس کے الگ نمبر، کوئی رپورٹ بنائی اس کے الگ نمبر، اس طرح پریزنٹیشن، ریسرچ، شجرکاری، حاضری، صفائی، ائی ٹی اسکلز، وغیرہ سب کے الگ الگ نمبر ہوتے ہیں ، ان نمبروں کا کل پانچ سو بنتا ہے جو کہ پچھلے حاصل کردہ نمبروں (یعنی تحریری اور انٹرویو) کے اوپر جمع ہوتے ہیں۔
اس مرحلے کو پاس کرنے کے بعد تمام گروپ ایک دوسرے سے جدا ہوکر اپنی مخصوص اکیڈمیوں کا رخ کرتے ہیں اور مختلف میعاد کی مختلف ٹریننگ سے گزرتے ہیں اس کو اسپیشلائزڈ ٹریننگ پروگرام کہا جاتا ہے۔ پولیس والے نیشنل پولیس اکیڈمی جاتے ہیں اور پولیس سے متعلق تربیت لیتے ہیں اور یونیفارم میں انکی تربیت ہوتی ہے۔ پاکستان کے کریمنل سسٹم کو سمجھتے ہیں اور پولیسنگ کے تمام امور میں ماہری حاصل کرتے ہیں۔ فارن سروس والے فارن سروس اکیڈمی جاتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات ، ڈپلومیسی وغیرہ امور سے متعلق تربیت لیتے ہیں، تربیت کے دوران زبان سیکھنے کیلئے مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں فرنچ سیکھنے کیلئے فرانس اور عربی سیکھنے کیلئے عرب۔ اسپیشلائزڈ ٹریننگ کے دوران بھی ہر سرگرمی میں افسروں کو نمبر دئے جاتے ہیں اور کل چھ سو نمبروں پر یہ تربیت محیط ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں پڑھائی کا زور زیادہ ہوتا ہے اور اخر میں ہر مضموں میں امتحان دیکر پاس ہوناضروری ہوتا ہے۔
اگر میں اپنی بات کروں تو ڈی ایم جی گروپ کیلئے ہم نے کوئی سترہ مضامیں پڑھے جن میں لینڈ ریونیو، قانوں (سول، فوجداری اور تغزیرات پاکستان)، ائین پاکستان، معیشت، لوکل گورنمنٹ، سپریم کورٹ کے فیصلہ شدہ کیسز، اربن ڈولپمنٹ، اسلامک لاء، پبلک مینجمنٹ نمایاں تھے ان کے علاوہ بےشمار ایکٹ، کیس اسٹڈیز، پالیسی پیپرز وغیرہ شامل تھے۔ اس ٹریننگ کو پاس کرنے کے بعد افسران فیلڈ میں جاتے ہیں اور اسسٹنٹ کمشنر کام کرتے ہیں۔ شروع کے کچھ مہینے زیر تربیت رہتے ہیں اور کسے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس دوران روزانہ کے امور کو تحریری صورت میں اکیڈمی کو بھیجتے رہتے ہیں۔ جو کام کریں یا جو فیصلہ لے لیں اسکا قانونی حوالہ مفصل طور پر لکھ کر اکیڈمی کو بھیجنا ہوتا ہے۔ اکیڈمی ان تمام رپورٹ کو پڑھتی اور کاموں کو دیکھتی ہے۔
اس مدت کے اخر میں پبلک سروس کمیشن ایک دفعہ پھر تمام افسران کو اسلام آباد بلاتی ہے اور گیارہ مضامیں میں تحریری امتحان لیتی ہے۔ اکیڈمی کے شب و روز کے معمولات کے پسے ہوئے اور فیلڈ میں دن رات کے کام سے تھکے افسران ایک بار پھر کمیشن کے سامنے سر خم کرتے ہیں اور کل ہزار نمبروں کے گیارہ پیپر دیتے ہیں۔ اس تحریری امتحان کو فائنل پاسنگ اؤٹ کہا جاتا ہے، جس میں فیل ہونے کی صورت میں مزید دو موقعے یعنی چانسز فراہم کئے جاتے ہیں۔کل تیں attempts میں ان مضامیں کو پاس کرنا ہوتا ہے وگرنہ سی ایس ایس کے دوڑ سے بندہ ” نکل باہر “ ہوجاتاہے۔ اس امتحان میں جتنے نمبر ائے وہ گزشتہ تمام نمبرون کے اوپر جمع ہوتے ہیں اور یوں دو ڈھائی سالوں میں کل چھتیس سو 3600 نمبروں کے مقابلے سے گزرنا ہوتا ہے، اور ان نمبروں کے حساب سے فائنل سنائرٹی لسٹ ترتیب دی جاتی ہےاور اس حساب سے اگے پروموشن ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سترہ سے اٹھارہ اور پھر بائس گریڈ تک جانے کیلئے بےشمار اور کٹھن مراحل کو اور عبور کرنا ہوتا ہے جن کا تذکرہ ہھر کبھی کرینگے۔

Advertisement
Back to top button