اپر چترالتاریخ اور ادبثقافتموسیقی

منصور شاب صاحب کو ایوارڈ دینے کا مطلب

جامعہ انوار العلوم شاد باغ ملیر کراچی کی جانب سے چترالی موسیقی کو اپنی اصلی حالت میں زندہ رکھنے پر چترال کی موسیقی کے درخشاں ستارے جناب منصور شبابؔ کو

شمس الحق قمر

جامعہ انوار العلوم شاد باغ ملیر کراچی کی جانب سے چترالی موسیقی کو اپنی اصلی حالت میں زندہ رکھنے پر چترال کی موسیقی کے درخشاں ستارے جناب منصور شبابؔ کو خصوصی انعام سے نواز نا اس امر کی دلیل ہے کہ موصوف نے گائکی کے فن کو اوج کمال تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہِیں کیا ہے ۔ علمائے کرام دین کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کے بھی امیں ہوتے ہیں اُن کی ہر بات سند مانی جاتی ہے کیوں کہ وہ مذکورہ دونوں شعبوں کی پرچار بے حد خلوص و محبت سے کرتے ہیں ۔ مولانا راضی صاحب، مفتی شفیق الرحمان اور مولانا شمس الدین صاحب کو دینی علوم پر درست رس کے ساتھ ساتھ کھوار، اُردو اور عربی ادب پر بھی عبور حاصل ہے ۔ ادب میں موسیقی کو سرُ تال سے زیادہ فن کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے ۔ منصور شباب صاحب نے لوک موسیقی کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ اُسے زنگ الود ہونے سے بچانے میں ہر ممکن کوشش کرنےمیں آپ کی دوسری کوئی مثال نہیں ہے ۔

 یاد رہے کہ آج کل کے ڈیجیٹل دور نے جہاں ہماری روایات پر اپنا سکہ بٹھا دیا ہے وہاں ہماری موسیقی بھی بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا چترال کو کیلاش ثقافت سے جاننے لگی ہے حالانکہ ہماری اپنی ثقافت کا اپنا رنگ ہے لیکن ہمارے نیے فنکاروں نے اپنی بے ہنگم موسیقی سے پشتو سے لیکر اُردو یہاں تک کہ انگریزی انداز تک کو ہماری زبان اور ثقافت کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔ میں جب لفظ ثقافت استعمال کرتا ہوں تو اس کا مفہوم صرف موسیقی تک محدودنہیں ہے البتہ موسیقی میں وہ جادو ہے جو کہ انسان کے رگ و پے میں بہت جلد سرائیت کر جاتی ہے اور اپنے لوگوں کی تہذیب کو دوسروں کو دکھانے کےلئے آیئے کا کام کرتی ہے ۔ اس ڈیجٹل دنیا کی ریڈیائی لہروں کے دوش اٹھنے والی نئی موسیقی کے بےہنگم انداز سے دنیا میں ہماری تہذہب کو بھی اُسی عدسے سے دیکھا جات ہے حالانکہ ہماری موسیقی ملائمت و سنجدہ گی کا مرقع ہے ۔ ہمارے گلوکاوں میں گل نواز خاکی مرحوم ، محمد حسن صاحب ، اقبال الدین سحر ، مبارک خان ، میرزہ علی جان اور قادر خان نے ریڈیو پاکستان کے کھوار پروگام کی وساطت سے اپنی موسیقی کی جو پرداخت کی تھی اُسے زندہ رکھنے میں اگر کوئی نام باقی ہے تو وہ منصور شباب صاحب کا ہے ۔ ہمیں نیے آلات موسیقی سے نفرت نہیں ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نیے آلات موسیقی کو اپنے انداز سے بجانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ہماری موسیقی کا اصل رنگ بر قرار رہے ۔ یہ حُسن صرف شباب میں نظرآتا ہے ۔ جامعہ انوار العلوم شاد باغ ملیر کراچی نے شباب صاحب کو خصوصی ایواڈ سے نواز کر ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ موسیقی ہمارے تمدن کا اہم حصہ ہے ۔ ہماری موسیقی ہماری تاریخ کی امین ہے لوگ ژور ، اشورجان ، یارمن ہمیں ، بروازی ، شب داز ، ڈوک یخدیز ، نانو ژان ، نانو بیگال اور نان دوشی وغیرہ ہماری تہذیب و تمدن کی تایخ کو دھراتے ہیں ۔ جس انداز سےمنصور صاحب ان تاریخی اشعار کو سرُ میں تبدیل کرتے ہیں تو تشریح کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی ہے ۔ جامعہ انوار العلوم شاد باغ ملیر کراچی کے منتظمیں اپنی تاریخ کو زندہ رکھنے کا فن جانتے۔ ہم مشکور ہیں اُن تمام احباب کے جو اپنے علاقے کے ستاروں کی قدر کرتے ہیں ۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ شباب کا انداز اور اواز ہماری پہچان ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے ہماری موسیقی کو زندہ رکھنے میں دل و جان سے محنت کی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں محظوظ فرما رہے ہیں 

؎۔ رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود

قطرۂ خُونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دل   

خُونِ جگر سے صدا سوز و سُرور و سرود

Advertisement
Back to top button