خبریںسماجیصحت

“غصہ”

ندا اسحاق

 

ہمیں بچپن میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے ایک کندھے پر “فرشتہ” اور ایک پر “شیطان” بیٹھا ہوتا ہے، اور پھر ساری زندگی ایک ہی پاٹ پڑھایا جاتا ہے کہ شیطان سے دور رہو، یا پھر اسے دبانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ 

شیطانی قوتوں (Sith Forces) میں غصہ، ہوس، جنون، لالچ، خوف وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور جس شیطانی قوت پر آج میں بات کروں گی اسے ‘غصہ’ کہتے ہیں۔ 

حکومت کے نافذ کردہ قوانین ہوں یا گھروں کے نظام، ہر جگہ ہم سے توقعات رکھی جاتی ہیں کہ ہم اچھا رویہ رکھیں اور اصولوں کی پاسداری کریں۔ خاص کر بچپن میں والدین اور معاشرہ بچوں کو ان کے تاریک جذبات (dark emotions) کا اظہار نہیں کرنے دیتا اور جب آپ کے اندر کے شیطان کو دبایا، دھتکارا یا قبول نہ کیا جائے تو وہ بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے، اس شیطان کو سائیکاٹرسٹ کارل یونگ (Carl Jung) “شیڈو” (shadow) کہتے ہیں۔ 

برا بھلا کہہ کر نکالے جانے یا پھر بےعزت کیے جانے پر ساری شیطانی قوتیں ہمارے ‘لاشعور’ (subconscious) یا پھر زیادہ بےعزتی پر ‘ناواقف ذہن’ (unconscious mind) جہاں لاشعور سے بھی زیادہ اندھیرا اور تاریکی ہوتی ہے، وہاں جا کر چھپ جاتی ہیں اور بدلہ لینے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کرتی ہیں۔ جتنا زیادہ لعن طعن یا ٹروما (trauma) ہوگا دماغ کی کوشش ہوتی ہے کہ اتنا ہی گہرائی میں اسے دفن کردیا جائے تاکہ دوبارہ وہ احساسات نہ سہنے پڑیں……. لیکن کیا ایسا ہوتا ہے؟؟ کیا وہ احساسات تاریکی میں دبائے جانے پر ختم ہوجاتے ہیں؟؟؟ 

غصہ ایک ایسا ایموشن ہے جسے ہم انسانوں نے جنس (gender) کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ ایک جنس ایسی ہے جس پر واجب ہے کہ وہ غصہ کرے تاکہ اسکی طاقت کا اندازہ ہوسکے اب چاہے اس جنس سے تعلق رکھنے والے انسان کو غصہ نہ بھی آتا ہو۔ دوسری جنس سے یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ غصہ نہ کرے چاہے اسکی روح غصے کی آگ میں جل ہی کیوں نہ رہی ہو! 

میں غصے کو بہت مختلف نظر سے دیکھتی ہوں، یقیناً ساری شیطانی قوتوں میں بہت طاقت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے لڑنا بیوقوفی ہے، اور جو قوت آپ کے جسم کا حصہ ہے، آپ کے اندر موجود ہے اس سے آپ کیسے لڑ سکتے ہیں، خود سے کیسی جنگ؟؟؟

البتہ اسے قابو (tame) کرکے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر آپ ان قوتوں کو قابو کرکے استعمال کرنا نہیں سیکھیں گے تو یہ آپ کو اپنے کنٹرول میں لے آئیں گی۔ 

میں غصہ کو قدرتی ایندھن (natural fuel) مانتی ہوں اگر اس کی حدوں کو پار کرکے اسے ٹھیک سے اور مکمل طور پرمحسوس کیا جائے اور پھر چینل (channel) کیا جائے تو یہ آپ کو طاقتور بناتا ہے۔ غصہ فیول ہے اور اسکا استعمال آنا چاہیے۔

غصہ کی پہلی اسٹیج: 

یہ اسٹیج ان لوگوں کے لیے ہے جنکا غصہ ‘لاشعوری طور پر دبا ہوا’ (repressed) ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر خواتین میں پایا جاتا ہے (اکثر مردوں میں بھی دبا ہوا غصہ ہوتا ہے)۔ جو لوگ اس انرجی لیول پر رہتے ہیں انہیں سائیکالوجی کی زبان میں ‘پیسو اگریسو’ (passive aggressive) کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے ٹاکسک غصے کا اظہار خواتین گھروں میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ کھل کر وثوق کے ساتھ (assertive) اپنے جذبات (خاص کر غصہ) کا اظہار نہیں کرپاتے۔ یہ والا انرجی لیول انسان کی صحت کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے۔

اگر آپ اس لیول پر ہیں، تو آپ کو اپنے اندر کے شیطان کو جگا کر اس سے ملاقات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کمرا جہاں وہ بند کردیا گیا تھا (غالباً بچپن میں) اسے وہاں سے نکال کر تازہ ہوا میں سانس لینے کی ضرورت ہے۔ 

غصہ کی دوسری اسٹیج: 

(مجھے غصے کی پہلی اسٹیج کی زیادہ معلومات نہیں کیونکہ میرا خود کاتجربہ دوسری اسٹیج کا رہا ہے۔ میں نے غصے کے اظہار میں کبھی کنجوسی نہیں کی اور جسکا بھرپور نقصان بھی اٹھایا)۔

(اکثر مرد اس اسٹیج سے تعلق رکھتے ہیں)

اب شیطان جاگ گیا لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود نہیں جاگا بلکہ آپ نے اسے دعوت دی ہے، اسکا مطلب یہی ہوا کہ آپ یہ سب ‘شعور’ (conscious) میں رہ کر رہے ہیں۔ جب ہمارے تاریک جذبات (dark emotions) کو اظہار کا موقع نہ ملے یا پھر ہم انہیں قبول نہ کریں تو وہ لاشعوری طور پر ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑا کرخود کے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور ہمیں فائدہ دینے کی بجائے اکثر نقصان دیتے ہیں۔

اب جب آپ اپنے غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو لوگ آپ سے ڈرنے لگتے ہیں اور لوگوں کا ڈرنا آپ کو طاقتور محسوس کرواتا ہے۔ اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے بلکہ اظہار کرنا ہے، آپ وثوق کے ساتھ (assertive) اپنے جذبات کا اظہار کریں گے، جہاں جسے انکار کرنا ہے کھل کر کریں گے۔ ضرورت پڑنے پر اگر کسی کو دو چار چپیڑ بھی لگانی پڑیں تو برائے مہربانی خود کو اجازت دیں!!

اس اسٹیج پر آپ اپنے دماغ کی تصور کرنے کی طاقت (imagination power) کا بہترین استعمال کرسکتے ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ غصے کی شدت کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو تصور کریں کہ آپ نے اپنے غصے سے پوری دنیا کو آگ لگا دی ہے، دنیا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کو آگ لگادی ہے اورآپ کھڑے ہوکر پوری کائنات کو جلتا اور پھر راکھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ [نیوروسائنٹسٹ کہتے ہیں کہ انسانی دماغ کی خاصیت ہے کہ یہ حقیقی تجربہ (real experience) اور تصوراتی تجربہ (imaginary experience) میں فرق نہیں کرسکتا، ہمارے دماغ کے لیے دونوں ہی ایک جیسے تجربے ہوتے ہیں، اس لیے آپ اس بات کا فائدہ اٹھائیں۔]

لیکن اس اسٹیج پر زیادہ عرصہ نہیں رکنا ورنہ اپنے غصے کی آگ میں خود جلنے لگیں گے، کب راکھ ہوجائیں گے علم ہی نہیں ہوگا۔ ہم انسان ہیں اور ہمیں ریسورسز کا استعمال کرنا بخوبی آتا ہے، غصہ ریسورس ہے، اسکا استعمال اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے نہ کہ خود کو راکھ کرنے کے لیے۔ 

میں جب اس اسٹیج پر تھی تب میں اپنے اس فیول کو دوسروں کو دھمکانے یا کنٹرول کرنے میں ضائع کرتی کیونکہ مجھے شعور نہیں تھا۔ (زیادہ غصے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب غصے کو آپ نہیں بلکہ یہ آپ کو کنٹرول کرنے لگتا ہے، یہ آپ کی کمزوری بن جاتا ہے اور لوگ آپ کو محرک (trigger) کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں)۔ تھوڑا شعور آیا تو میں نے غصے کا استعمال اپنی جسمانی صحت (physical transformation) کے لیے کرنا شروع کیا۔ مجھے فزیکل ایکسرسائز نے بہت مدد دی اپنا غصہ دوسروں کی اور خود کی زندگی کو عذاب بنانے کی بجائے اپنی جسمانی صحت کو تھوڑا بہتر بنانے میں استعمال کرنے کے لیے۔ آپ اپنی تلاش جاری رکھیں کہ کس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آپ اپنے غصے کا استعمال کرسکتے ہیں۔

غصہ کی تیسری اسٹیج:

اب تھوڑا اور گہرائی میں جائیں گے…..

غصہ ایک اوائلی جذبہ (primitive emotion) ہے۔ اسٹائک فلاسفر سینیکا کہتے ہیں کہ ہم انسان باقی جانوروں کی طرح نہیں ہیں، ہماری ضروریات بہت مختلف ہیں باقی جانوروں سے۔ ہم اپنے غصے کا موازنہ دوسرے جانداروں کے غصے یا انکی جبلت سے نہیں کرسکتے۔ ہم ایک سماجی مخلوق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے رہنے کے اصول باقی کے جانوروں سے مختلف ہیں کیونکہ ہمارے پاس منطق (logic) اور وجوہات (reasons) کی طاقت موجود ہے جو غصے پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن جانوروں والے سارے جذبات بھی ہمارے اندر موجود ہیں۔ اگر ان جذبات کا اظہار کرنا یا انہیں دبانا، دونوں ہی ہمارے لیے درست نہیں تو پھر جذبات کا کیا کیا جائے؟؟؟

یہاں سب سے طاقتور تکنیک جو ہمیں اس شیطان اور فرشتے کی جنگ سے نجات دلاتی ہے وہ ہے “مشاہدہ” (observe) کرنے کی صلاحیت۔ جب آپ اپنے اندر اٹھنے والے جذبات یا ملنے والے ٹروما کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر یا تو اسکا حل نکالتے ہیں یا ان جذبات کو اپنے جسم میں حل (dissolve) ہونے دیتے ہیں یا اسے تخلیقی صلاحیت (creativity) میں بدلتے ہیں تب آپ ‘انسان’ کہلاتے ہیں، کیونکہ صرف غصے والے جذبات کو خود پر حاوی کرنا آپکو اوائلی (primitive) سطح پر رکھتا ہے۔ 

میڈیٹیشن بہت طاقتور تکنیک ہے اپنے جذبات کا مشاہدہ کرنے کے لیے، اس کے علاوہ جرنلنگ (اپنے جذبات کو لکھنا)بھی بہت کارآمد ہوتی ہے۔ یا پھر کوئی بھی تکنیک یا میڈیم جس کے ذریعے آپ اپنے غصے اور مختلف جذبات کا مشاہدہ کریں یا اس کو تخلیقی صلاحیت میں بدل سکیں، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کونسی تکنیک استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ 

میں غصے میں میڈیٹیشن نہیں کرسکتی، میں لکھتی ہوں، اکثر جرنلنگ یا پھر اکثر کوئی بھی آرٹیکل۔ وہ تمام آرٹیکل جو میں نے غصے میں لکھے انہیں سب سے زیادہ پذیرائی ملی کیونکہ شاید وہ کارآمد بھی تھے (لیکن یہ صورت حال تب آتی ہے جب آپکا غصہ آپکے قابو میں ہو اور آپ شعور میں سب کررہے ہوں البتہ عموماً لوگ غصے میں صرف نازیبا الفاظ یا گالیاں ہی لکھتے ہیں)۔

غصہ برا یا اچھا نہیں، وہ بس ایک جذبہ ہے اور اس جذبے کے اظہار کا طریقہ آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ غصہ ایک فیول کی مانند بھی ہوسکتا ہے، یہ ایک موٹیویٹر (motivator) بھی ہوسکتا ہے جس کی مدد سے آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں، یا پھر یہی غصہ جو فیول ہے اور آپ کو اسکا بہتر استعمال نہیں آتا تو یہ آپ کو اور آپ کی زندگی کو جلا کر راکھ بھی کرسکتا ہے!!! 

(پوسٹ میں موجود تصویر میں مرد ہندو دیومالائی کہانیوں میں ‘غصے اور تباہی’ کا دیوتا “شیوا” (Shiva) ہے جبکہ تصویر میں جو عورت ہے وہ ہوواین(Hawaiian) دیومالائی کہانیوں میں ‘غصے اور آگ’ کی دیوی “پےلے” (Pele) ہے……بیشک جذبات کی کوئی جنس نہیں ہوتی!)

Advertisement
Back to top button