خبریںخواتین کا صفحہکھیل

کانپیں ٹانگ گئے

فریاد فدائی

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد

 

گلگت وومن سپورٹس گالا کے انعقاد کے بعد جو صورت حال گلگت بلتستان میں پیدا ہوچکا ہے انتہائی تشویشناک ہے اس میلے کی انعقاد پر گلگت بلتستان بھر کی سیاسی،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سمیت عام شہریوں میں بھی شدید اضطراب پایا جارہا ہے ایسے میں وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید مذکورہ ایونٹ کو ختم کرکے امن کی فضاء قائم کرنے کی بجائے میلے کا نام تبدیل کرکے نہ صرف کند ذہنی کا عملی ثبوت دے رہے ہیں بلکہ لوگوں میں پائی جانے والی تشویش کو مزید آزمانے کی کوشش کررہے سی ایم صاحب کی آج کا پریس کانفرنس ان کی نفسیاتی برتری کو جانچنے میں مدد فراہم کررہا ہے کہ ایک ذمے دار شخص جس نے پورے جی بی کے معمالات کو دیکھنا ہے کس قدر بےبس نظر آرہے ہیں حالانکہ انہیں اس وقت اٹل اور مستحکم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے بجائے مذکورہ میلے کو ملتوی کرکے لوگوں میں پائے جانے والی اضطراب کو ختم کرے میلے کا نام تبدیل کرکے بے حیائی کے بازار کو گرم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں آپ میلے کا نام جو بھی لیکن اس کے اس کے سد باب کو پرکھنے کی ضرورت ہے البتہ وزیر اعلی گلگت بلتستان صرف ظاہری اسباب کو مسلے کا اصل وجہ قرار دے رہے ہیں جو کہ ما سوائے کند ذہنی اور نفسیاتی طور پر معذوری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس وقت گلگت بلتستان کے لوگ جو کہہ رہے یا جس میلے کی مخالفت کررہے ہیں اس میلے میں خواتین کی شرکت اور کھیل کود کو روکنے کے لیے کررہے ہیں نہ کہ یہ نام مسلے کا احتجاج کی اصل وجہ ہے میری زاتی رائے یہ ہے کہ جو بھی حکومتی فیصلے ہورہی ہیں وہ گلگت بلتستان کی عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ضروری ہے عوامی خواہشات اور ان کی جذبات کے برعکس فیصلے نہ صرف حکومت کے تابوت میں کیل ثابت ہوسکتے ہیں ہیں بلکہ اس سے گلگت بلتستان کی پر امن فضاء بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

آپ مذکورہ میلے کا نام بھی تبدیل کرے اور خواتین کو برقہ نہیں احرام پہنا کر بھی میلہ کروائے لیکن اس میلے سے صرف اور صرف بے حیائی اور فحاشی کو تقویت ملے گی بحیثیت مسلمان خواتین کا حترام ہر مسلمان پر فرض ہے بلکہ انہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہمارے خواتین گلگت بلتستان جیسے حساس اور پسماندہ علاقے میں بیٹھ کر ہمار لندن اور یورپ جیسے سہولیات اور آزادی کا تقاضا کرے ہمارا معاشرا آج بھی عورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو مقدس سمجھا جاتا ہے لہذا گلگت بلتستان کی خواتین سے بھی گزارش ہے کہ وہ خود بھی اس قسم کے شغل میلوں کا حصہ نہ بنے جو ہماری روایات کے برعکس ہیں۔

Advertisement
Back to top button