خبریںسماجیصحت

چترال بازار سے قصائی اور مرغیوں کی دکانیں باہر منتقل کیا جائے۔ عوامی مطالبہ

چترال (گل حماد فاروقی/چمرکھن) چترال میں ملک بھر کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی سیاح آتے رہتے ہیں مگر چترال بازار میں جگہہ جگہہ گوشت اور مرغیوں کی دکانوں سے نکلنے والی بدبو کی وجہ سے راہگیروں اور ان سیاحوں کو نہایت مشکلات کا سامنا ہے۔ طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آشیائے خوردنوش کے قریب ان دکانوں کی موجودگی سے زونوٹک بیماریاں لگنے کا خطرہ بھی لاحق ہے۔

چترال بازار میں جگہہ جگہہ قصائیوں اور مرغیوں کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ ان دکانوں سے نکلنے والی بدبو سے اگر ایک طرف راہ گیر اور سیاح کافی تنگ ہیں تو دوسری طرف یہ انسانی صحت کیلئے بھی حطرہ ہے۔ طب کے ماہرین کے مطابق ساڑھے تین سو سے زیادہ ایسی بیماریاں ہیں جو جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں کو لگتی ہیں انہیں زونوٹک ڈیزیز یعنی بیماریاں کہتے ہیں۔ 

ہماری ٹیم نے اس سلسلے میں ایک سروے کرکے محتلف لوگوں اور ماہرین سے بات چیت کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان مرغیوں کی دکان اور انہیں لانے والی اور ان کا فضلہ اٹھانے والی گاڑی سے نکلنے والی بد بو کی وجہ سے ہم سانس نہیں لے سکتے ہیں۔ 

چترال کے موجودہ اور سابقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز ڈاکٹر فیاض رومی، ڈاکٹر اسراراللہ اور ڈاکٹر نثار اللہ نے بات کرتے ھوئے ان مرغیوں سے لاحق ہونے بیماریوں کی خطرات کی تصدیق کرلی۔ طب کے ان ماہرین کے مطابق جو چیزیں ہم بغیر ابالے یعنی پکائے کھاتے ہیں جیسے پھل، سلاد، بیکری، مٹھائی وغیرہ جو مرغیوں اور گوشت کے دکانوں کے قریب ہو تو ان سے زونوٹک بیماری لگ سکتی ہے۔ 

تاجر یونین کے سابق صدر شبیر احمد کے مطابق ان کے ساتھ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے باقاعدہ خط و کتابت بھی کی تھی کہ ان دکانوں کو بازار سے باہر منتقل کی جائے جس کی شبیر احمد نے تصدیق کرلی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن گاڑیوں میں نیچے اضلاع سے مرغیاں لائی جاتی ہیں وہ اکثر کھلے ہوتے ہیں اور ہوا کی وجہ سے ان کی پر اور بدبو پورے بازار میں پھیل جاتی ہے اس کے علاوہ مرغیوں کا فضلہ بھی یہاں سے پشاور وغیرہ لے جایا جاتا ہے جن سے کوئی تیل وغیرہ نکالا جاتا ہے وہ گاڑی بھی ایک کھلا ڈاٹسن ہے اس میں سے اتنی بدبو آتی ہے کہ انسان کا سر چکرا جاتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان کے اوپر کوئی ترپال وغیرہ ڈال کراسے ڈھانپے تاکہ اس سے بدبو اور گندگی باہر نہ پھیلے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب میں تاجر یونین کا صدر تھا تو مرغیوں لانے اور ان کا فضلہ لے جانے والے گاڑیوں کو شام کے بعد بازار میں اجازت ملتی تاکہ عوام کو اس کی بدبو اور مضر اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

ڈپٹی کمشنر چترال انوار الحق بھی عوام کے پرزور مطالبے پر ان دکانوں کو باہر منتقل کرنے کا خواہش مند ہے مگر ان کے مطابق اس سلسلے میں دکانداروں کی طرف سے تعاون بھی ضروری ہے۔ 

ڈپٹی کمشنر نے چترال ٹوڈے کو بتایا کہ اس سلسلے میں ٹی ایم اے، لائیو سٹاک محکمہ باقاعدہ کام کررہا ہے اور ہمیں بھی بار بار عوام کی طرف سے شکایت آتا ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان کوکسی الگ مارکیٹ میں منتقل کرے مگر عوام اور دکانداروں کو بھی چاہئے کہ اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کرے بلکہ اس کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے۔ 

مرغیوں کے دکانوں کے آس پاس دکانداروں کو بھی اس کی بدبو سے کافی تکلیف ہوتی ہے اور ان کے پاس اس وجہ سے اکثر گاہک بھی نہیں آتے۔ دنین بازار میں آئس کریم بیچنے والے ایک دکاندار نے بتایا کہ میرے ساتھ ہی مرغیوں اور گوشت کی دکانیں ہیں جن کی پر اور فضلہ جات وغیرہ ہوا کی وجہ سے میرے دکان میں بھی داحل ہوتا ہے اور جب گاہک آئس کریم کھاتا ہوتا ہے ان کو اس سے اور ان دکانوں سے نکلنے والی بدبو سے بہت تکلیف ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر گاہک میرے دکان میں آئس کریم کھانے نہیں آتے۔ چترال کے دکاندار اور بازار آنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاح بھی

 انتظامیہ اور حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دکانوں کو بازار کے بیچ میں سے باہر نکال کر کسی الگ مارکیٹ میں منتقل کیا جائے تاکہ ان کی بدبوں سے راہ گیروں اور سیاحوں کو بھی تکلیف نہ ہو۔ ان دکانوں کے قریب پھل، سبزی، بیکری اور مٹھائی کے دکانوں سے بھی یہ دور رہے تاکہ ان چیزوں کو کھاکر زونوٹک بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔ واضح رہے کہ طب کے ماہرین کے مطابق جو چیزیں ہم بغیر ابالے یا پکھائے کھاتے ہیں جیسے سلاد، پھل، بیکری، مٹھائی وگیرہ اگر یہ چیزیں مرغیوں اور گوشت کے قریب پڑے ہو تو ان سے کھانے والوں کو بھی زونوٹک بیماری لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

Advertisement
Back to top button