اپر چترالتاریخ اور ادب

”سردار حسین شاہ، جن یا انس“ قسط نمبر 7

شیخ جہانگیر جنات کی محفل میں )

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

شیخ جہانگیر صاحب نے اپنا معمول جاری رکھتے ہوئے آرام و سکون سے اپنے خیمے میں راتیں گزارنی شروع کیں ۔ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ رات یہی کوئی 12 بجے سے 1 بجے کے درمیاں خیمے کے باہرکسی عورت کی مانوس سی آواز معاً سماعتوں سے ٹکرا گئی ۔شیخ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ شاید خواب میں کچھ ہو رہا ہے لیکن یہ خواب نہیں تھا بلکہ یہ اُس عورت کی آواز تھی جو آج سے کئی دن پہلے سر دار صاحب کی عدالت میں حاضر ہوئی تھی اور اب میرے خیمے کے باہر اُسی قد و قامت کے ساتھ کھڑی تھی ۔ میں نے یکدم سلام کیا تو جن گویا ہوئے ” آج مختلف پہاڑی چوٹیوں سے جنات اپنا سالانہ جشن منانے یہاں آ رہے ہیں جن میں لداخ کے پہاڑی سلسلوں کے جنات کے علاوہ بلستان کے سیاچن سے لیکر ہوشے کے تمام پہاڑی سلسوں ، راکاپوشی ، پامیر ، ترچمیر اور مانسرہ کے باسی جنات بھی شامل ہیں ۔ آج کی محفل میں آپ ہمارے مہمان خصوصی ہوں گے ۔” یہ کہتے ہوئے جن نے اپنی راہ لی ۔ میں وضو کے لئے چشمے کی طرف گیا اور واپسی پر کیا دیکھتا ہوں کہ دریائے شیوق کے لب پر قرنوں سے پڑی بے آب و گیاہ زمیں شامیانوں ، صوفوں اور رنگ برنگے قالیونوں اور کرسیوں سے بھری پڑی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے قد کی مخلوق جمع تھی ۔شیخ کہتے ہیں کہ میں جیسے ہی شامل ہوا تو محفل میں ایک آدم زاد کی تشریف آوری کا اعلان ہوا ۔جس جن عورت نے مجھے مدعو کیا تھا وہ بھی اُس محفل میں پیش پیش تھی لیکن وہ قد کاٹھ میں سکڑ کر اُتنی ہی بنی تھی جتنی کہ باقی جنات ۔ مجھے درمیانی کرسی پر بٹھایا گیا اور موسیقی شروع ہوئی ۔ میں دوبارہ سوچنے لگا کہ کہیں یہ سب کچھ خواب تو نہیں ؟ بہر حال مجھے رقص کےلیے کہا گیا ۔ شیخ کہتے ہیں کہ میں ایک مولوی آدمی ہوں میں نے زندگی میں کبھی رقض نہیں کیا تھا لیکن آج میں سب سے بہترین رقاص بنا ہوا تھا ۔ محفل کا اختتام ہوا تو جنات نے اپنے مہمان کو ایک تحفہ دیا ۔ تحفہ ایک چھوٹا سا انسانی ڈھانچہ تھا ۔ جنات نے تنبیہ کی کہ اسے حفاظت سے ہمیشہ اپنے پاس رکھا جائے اور جب ہم میں سے کسی کی بھی ضرورت پڑے تو اسے باہر نکال کر تین مرتبہ بسمہ اللہ پڑھ کر آسمان کی طرف اٹھا لیں ، ہم آپ کی خدمت کےلئے حاضر ہو جائیں گے ۔ صبح شیخ جہانگر سیدھا سردار حسین صاحب کے پاس گئے اور ساری کہانی سردار صاحب کو سنائی ۔ سردار ہر کام میں عجلت کرتے ہیں لہذا ہمیشہ کی طرح اُنہوں اب کی بار بھی شیخ سے تقاضا کیا کہ جو طریقہ کار جنات کی طرف سے بتا دیا گیا ہے اُسے اپنا یا جائے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنات کیسے حاضر ہوتے ہیں ۔ شیخ نے چھوٹا سا انسانی ڈھانچہ بسمہ اللہ پڑھ کے آسمان کی جانب اُٹھا یا اور پھر تھوڑی دیر بعد شیخ بے ہوش ہوے۔ یہاں سے آگے کیا ہوا کیا نہیں ہوا شیخ کو مطلقاً خبر نہ ہوئی البتہ اُن کے ساتھ نشست میں شامل افراد میں پیر صاحب ، اُن کا صاحبزارہ ناد علی او ر صاحبزادی آئمہ موجود تھی۔ شیخ کے بے ہوش ہو جانے کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ، میں نے پیر سردار صاحب کے بچوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ شیخ کی آوز مکمل طور پر تبدیل ہوئی تھی اور وہ بچوں کی آواز میں بلتی زبان میں بول رہے تھے ۔ ہمارے ابو نے ہم سے کہا کہ ہم جنات سے بلتی زبان میں کہیں کہ وہ چترالی زبان میں بات کریں ۔ شیخ کی زبان سے بولنے والی جن نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دے دیجیے ہم ترچمیر کی پریوں کو بلاتے ہیں – تھوڑی دیر بعد شیخ نے چترالی زبان میں بولنا شروع کیا تو پیر سردار صاحب نے اپنے علاقے کے کئی ایک لوگوں کی خیرو عافیت دریافت کی اور جنات کی طرف سے دی جانے والی معلومات کی تصدیق کےلئے اُنہوں نے چترال فون بھی کیا اور یہ جان کر اُسے حیرت ہوئی کہ جنات جو بتا رہے تھے وہ درست تھا ( یاد رہے کہ اس قصے میں کوئی کردار فرضی نہیں ہے یہ سب کچھ میں نے شیخ جہانگیر سے اپنے کانوں سے سنا اور آپ کی نذر کی ۔اگر مزید تصدیق کی ضرورت ہوئی تو مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں تاکہ میں شیخ جہانگیر کافون نمبر آپ کو دے سکوں اور آپ اپنے کانوں سے یہ کہانی خود سنیں )
جنات کے وجود کا ایک قصہ گلگت کے مشہور کوہ پیما اشرف امان نے بھی خود اپنی زبانی مجھے بتایا تھا ۔ اشرف امان صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ کچھ غیر ملکی دوستوں کے ساتھ ترچمیر کی چوٹی سر کرتے ہوئے سِمٹ کے پاس پڑاؤ ڈالا تو رات کو مسلسل بے سکونی کی کیفیت رہی ۔ ایسا لگتا تھا کہ کچھ لوگ اُس کے خیمے کے آس پاس چمی گوئیاں کرتے ہوئے گھوم رہے ہیں- وہ کئی مرتبہ ٹارچ ہاتھ میں لے کر باہر نکلے لیکن اُنہیں کچھ نظر نہ آیا اور نہ ہی برف پر پاؤں کے کوئی نشانات تھے ۔ اُ ن کا کہنا ہے کہ یہ حرکت جنات کی تھی ۔ صبح اُٹھ کر یہ کہانی باقی کوہ پیماؤں کو بھی سنائی اور پھر اُن سے یہ سن کر ششدررہ گیا کہ باقی کوہ پیماؤں کی نیند میں بھی اسی طرح ہی خلل پڑا تھا ۔
سردار حسین صاحب کی وادی کیلاش میں بٹن سے مقابلے کی داستان بھی اُس محفل میں موجود کئی ایک لوگوں کے یہاں مشہور ہے ۔ ہم بٹن سے مقابلے کا انوکھا واقعہ اور بٹن کے بدن کو آگ لگنے کی کہانی اگلی قسط میں آپ کو بتائیں گے ۔
( جاری ۔۔۔۔۔ باقی قسط نمبر – 8 میں ملاحظہ کیجیے)
چھٹی قسط کے لیے یہاں کلک کیجیے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5996656520351682&id=100000221791699
پانچویں قسط کےلئے یہاں کلک کیجئے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5992943297389671&id=100000221791699
چوتھی قسط کیلیے یہاں کلک کیجیے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5989762494374418&id=100000221791699
تیسری قسط کے لئے یہاں کلک کیجئے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5960576433959691&id=100000221791699
دوسری قسط کےلئے یہاں کلک کیجیے
https://www.facebook.com/shams.glt/posts/5957813320902669
پہلی قسط کےلئے یہاں کلک کیجیے
https://www.facebook.com/100000221791699/videos/5091725584237138/

Advertisement
Back to top button