تاریخ اور ادبثقافتخواتین کا صفحہ

ہمارے مہمان وبال جان”

راجمینہ راج

جامعہ کراچی ، شعبہ اردو

 

لفظ مہمان جب سماعت کے پردے سے ٹکراتا ہے تو کافی بھلا مانس معلوم ہوتا ہے، بشرط یہ کہ اگر ہم اپنے ذہن کے دریچوں سے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے اپنے بچپن میں پہنچ جائیں، اس وقت میں ہمیں مہمان کافی بھلی مانس مخلوق معلوم ہوتے تھے۔ ( اب اگر آپ ایک سمجھدار انسان ہیں تو )آپ بولیں گے بھلا ایسا کیا جنتر منتر تھا ہمارے پاس کہ ہمیں یہ وبال نما اوہ معاف کیجئے گا مہمان نما خلقت بھی اچھی لگتی تھی تو بھئی اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں ڈبکیاں لگانا پڑیں گی گہرائی میں، یعنی کہ تفصیل سے بتانا پڑے گا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہم اس عمر میں تھے جس کو زندگی کا سنہرا دور کہا جاتا ہے ۔ یعنی کہ بچپن۔ (جس عمر کے مہمان اب ہمیں سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہوتے ہیں ) جی ہاں یہی کوئی پانچ سے آٹھ سال ،اس عمر میں رشتے ناتوں کی کوئی خاص تمیز نہیں ہوتی ہے ہر وہ بندہ یا بندی جو جاتے وقت ہمارے شعبہ مالیات میں رنگ بھر دے، یعنی ہماری جیب کو گرما دے وہ بہت بھلا لگنے لگتا تھا اور زیادہ تر ایسے ہی مہمانوں سے واسطہ پڑتا تھا یا پھر ہم بہت چھوٹے تھے( اتفاق سے قدرتی طور پر خوبصورت بھی تھے )جبھی نہ دینے والے لوگ بھی کچھ نہ کچھ مالی تعاون کر جاتے تھے تو جناب اس لیے اس دور میں ہمیں مہمانان گرامی بہت ہی اچھے لگتے تھے اور ہماری پسندیدہ مخلوق ہوتے تھے ، اور آپس کی بات ہے کہ ہماری اماں محترمہ ہماری بلاوجہ کی شیطانیوں پر اگر غصے میں بھی ہوتی تھیں تو اللہ کی رحمت یعنی مہمانوں کو دیکھ کر ایک دم سے چہرے پر مسکراہٹ سجا لیتی تھیں،اور اور پھر یوں سمجھئے کہ ہمیں کھلی آزادی مل جاتی تھی جیسے قیدیوں کو جیل سے رہائی مل جاتی ہے ،یا کسی کام کا لائسنس مل جاتا ہے،جتنی دیر مہمان ہمارے گھر میں ہوتے ہم آزادانہ وارداتیں کرنے کے متحمل رہتے تھے۔اور مہمانوں کا یوں ہمارے گھر میں رکنا ہمارے لئے ایک بہت ہی اچھا وقت ثابت ہوتا تھا۔

خیر چھوڑیئے ذکر ہمارا نہیں کرنا( ہم تو نہایت معصوم سے ہیں) مہمانوں کا کرنا تھا، صفحات کی طوالت کا خدشہ ہے لیکن پھر بھی تیزی سے میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سنا دیتی ہوں ( ارے آپ سن کہاں رہے ہیں, پڑھ رہے ہیں چلیں پڑھ لیجیئے، ایک ہی بات ہے)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے بورڈ کے امتحانات کے دن قریب تھے،اور ہم کتابی کیڑا بنے ہوئے تھے،اور حسب عادت اپنی کتابیں پین مارکر، کلرز اور متعلقہ تمام اشیاء کا اسٹال اپنے بستر پر سجا کر نہایت انہماک سے مطالعہ کرنے میں مشغول تھے، اتنے میں ڈور بیل کی نہ تھمنے والی آواز نے ہمیں سر پیٹنے پر مجبور کر دیا، خیر کوئی بھاگم بھاگ دروازے تک پہنچا اور دروازہ کھولا ، تب بیل کی چنگھاڑ بند ہوئی ،اور ہم نے سکون کا سانس لیا،لیکن رکیے بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی ابھی کچھ لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ ہمیں یوں محسوس ہوا کہ ہم اپنے گھر میں نہیں بلکہ وہاگا باڈر پر بیٹھے ہیں فوجی جوتوں کی آوازوں کے ساتھ بچوں کے رونے اور عجیب و غریب آوازوں کے مجموعے نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں کتاب بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور ہم موقع واردات پر پہنچے (کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جنگ آزادی سوم گزر جائے اور ہمیں کتاب پڑھنے سے ہی فرصت نہ ملے۔) معلوم ہوا ہمارے وہ رشتے دار جو کہ تقریبا سب ہی ایک علاقے میں رہتے ہیں ۔ان میں سے تین فیملیاں ایک ہی وقت میں (پورے جنجال سمیت) ہمارے گھر شرف ملاقات بخشنے آگئی ہیں، سلام دعا خیر خیریت اور کچھ وقت ان کہ ساتھ بیٹھنے کے بعد ہم دوبارہ اپنے کمرے میں پہنچے ،تو کمرے کا نقشہ تبدیل ہو چکا تھا ،بچہ پارٹی کی فوجی یلغار نے ہمارے کمرے کو حدف بنایا تھا، اور فتح کے جشن کے بعد اب مال غنیمت سے دو دو ہاتھ کر رہے تھے،آپ بھی نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔

 تین سالہ کزن کے ہاتھ میں ہماری کتاب کے تازہ زخمی صفحات تھے اور ان سے خون رس رہا تھا اور کتاب لاچار نگاہوں سے ہماری جانب دیکھ رہی تھی،مہمانوں کی مستقبل کی ایک ڈیزائنر بچی ہمارے مارکرز سے دیگر بچوں کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھی،بستر کی چادر پر سیاہی کی شیشی الٹائی گئی تھی جس کی وجہ سے چادر اپنے اصلی رنگ سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی، ابھی ہم اسی بات پر چکرا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کیا کیا جائے ،کہ معلوم ہوا ان میں سے ایک موصوف ہمارے کمرے میں بچھائے گئے نئے قالین کو اپنے قضاے حاجت کا مرکز بنا چکا ہے ۔نہیں معلوم کب وہ گئے اور ہم کتنے دن تک اپنے گھر کے نقشے کو واپس استوار کرنے میں لگے رہے ۔

وہ کہتے ہیں ناں بات نکلی ہے تو دور تک جائے گی ، یا دکھتی رگ پر چھری رکھ دی یا زخموں پر نمک چھڑک دیا، یا آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھ لیجئے اب جب وبالوں کا ذکر نکل ہی گیا ہے تو ہم بھی کیوں پیچھے رہیں اور اپنے دکھڑے نہ سنائیں،لگے ہاتھوں ایک چھوٹا سا زخم اور دکھا دیتے ہیں،

اب سے کچھ سالوں پہلے تک فطرتاً ہمیں گھومنے کا بہت شوق تھا، جبکہ ہمارے اماں اور ابا حضور اس کے بالکل متضاد تھے، ان کے پاس گھر میں بیٹھے رہنے کے فوائد پر مشتمل داستانیں, کہانیاں ناول،روداد( اور بھی جتنی اقسام ہیں وہ سب ) ہوا کرتی تھیں،اتنے سنگین حالات میں بھی ہم نے جیسے تیسے اپنے پکنک کے پلان کو عملی جامہ پہنا دیا، ہم بہن بھائی خوشی خوشی تیار ہونے لگے ، اسی دوران ابا جان کے فون کی گھنٹی بجی،اور معلوم ہوا ایک بار پھر مہمانوں کی آمد ہے،ہم نے خود کو بےہوشی سے بچانے کہ لیے دلاسے دئیے کہ کچھ دیر کہ لیے آۓ ہیں کچھ نہیں ہوتا،لیکن چھٹی حس چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کے ہمارے گھومنے کے پلان کا جنازہ مہمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔

 یہ مہان مہمان رات گئے تک ہمارے ساتھ رہے اور پھر زیادہ رات ہو جانے کی وجہ رسمی سے روکنے پر ہی فوراً ہامی بھر لی،اور رات بھر کہ لیے رک بھی گئے، چار و ناچار میزبانوں کو مہمانوں کہ لیے ایثار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے لہذا ہم نے اپنے بستروں پر ان کو شریک کار بنا لیا،ان کی ایک صحت مند ہماری ہم عمر لڑکی کو امی نے میرے ساتھ سلا دیا، رات میں ٹانگ میں شدید تکلیف سے ہماری آنکھ کھلی تو معلوم ہوا موصوفہ پورے بستر پر قبضہ کر چکی ہیں اور ان کا ایک من وزنی ہاتھ ہمارے پیر پر ہے،اور مزے سے خراٹے لے رہی ہیں،رات گئے کرین بلوانا ہمیں مناسب معلوم نہ ہوا اور اپنی مدد آپ کے تحت ملبہ میرا مطلب ہے اس کے گوشت سے لدھے ہاتھ کو ہٹایا۔در اصل ہم ٹھہرے دھان پان نازک سے،اور ضرورت سے زیادہ حساس طبیعت کے،جبھی ذرا سی پریشانی بھی ہمیں پہاڑ لگنے لگتی ہے،خیر جیسے تیسے صبح ہوئی ۔مگر اب بھی ایک نیا مسئلہ ہمارا منتظر تھا، اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ریل گاڑی کے اسٹیشن پر موجود ہیں،

 تمام باتھ روم کے دروازے بند تھے، اللہ اللہ کر کہ بلاآخر ہمارا نمبر بھی آہی گیا اور ہم 

 اس مرحلے سے باہر آے،دوپہر سے شام ،اور شام سے رات ہوئی، شاید ہماری کوئی نیکی اللہ کو پسند آگئی،اور یہ آفت ہمارے سر سے ٹل گئی ،

دن بھر کے واقعات اگر بتانے بیٹھ جاؤں تو شاید آپ ہمارے آنسو پوچھنے ہمارے گھر ہی چلے آئیں گے،لہذا اسی خوف کے پیش نظر بقیہ واقعات کو حذف کر دیتے ہیں،

ہاے یہ مہمان،

ایک نہیں دو نہیں ہزاروں مہمان اس وقت ہمارے ذہن میں بے ہنگم انداز میں گھوم رہے ہیں،ایک دفعہ ہمارے گھر کچھ خالص دیسی مہمان رکنے کہ لیے آگۓ ، دوپہر میں جب امی کچن میں کھانا بنانے کے لیے گئیں تو معلوم ہوا کچن میں سے سبزیاں گاجر کھیرا ٹماٹر وغیرہ سب غائب ہیں تفتیش پر معلوم ہوا یہ لوگ کچی سبزیاں بہت شوق سے کھاتے ہیں اور چکھنے چکھانے میں ہی کچن کا صفایا ہو چکا ہے،اور یہ تو صرف کچی سبزیوں کا ذکر ہے آگے کا دکھڑا سنانے کی مجھ میں سکت نہیں ،آپ خود سمجھدار ہیں اندازہ لگا لیجیے۔

ہے میزبانی کا یہ تقاضا کہ آے مہمان تو مسکرا دو

مگر طبیعت یہ چاہتی ہے کہ گلے ملو اور گلا دبا دو

یہ تو روداد یا واقعات تھے ،اب ذرا ایک نظر مہمانوں کی اقسام پر ڈالتے ہوے مضمون کو سمیٹتے ہیں،ملاحظہ فرمائیے گرگٹ کے سات رنگ اوہ معاف کیجیے گا،مہمانوں کی سات رنگ( پتہ نہیں کیوں مہمانوں کے ذکر پر زبان بار بار پھسل رہی ہے)

مہمانوں کی اقسام:

کیوٹ مہمان:

یہ مہمانوں کی وہ واحد قسم ہے جو ہمیں پسند ہے۔ان کی خصوصیات میں سے نمایاں خاصیت یہ ہے کہ یہ عزت سے آ کر ڈرائنگ روم میں سکون سے بیٹھ جاتے ہیں،بلا وجہ کی فنکاریاں نہیں دکھاتے،اپنے ساتھ تحفے تحائف لے کر آتے ہیں،اپنی یا اپنے بچوں کی تعریفیں کر کر شوخیاں نہیں دکھاتے۔بلکہ ہماری تعریف کرتے ہیں،ایسے لوگ بہت قیمتی اور انمول ہوتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ایسے مہمانوں کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ عنقریب معدوم ہوجائیں گے۔

برگزیدہ مہمان:

یہ مہمانوں کی وہ قسم ہے ۔ جو اپنے ساتھ نصیحتوں کا پلندا اٹھا کر لاتی ہے،ایسے مہمان ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتے،مگر مجبورا برداشت کرنا پڑتا ہے۔ان کی باتیں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں۔

باریک دوپٹہ کیوں پہنا ہے؟سبزیاں کیوں نہیں کھاتی ہو؟موبائل کا استعمال کم کیا کرو. صحت کا خیال کرو اتنی دبلی کیوں ہو رہی ہو،ایسے مہمان تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں،اور مسلسل ان کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بٹالین مہمان:

یہ مہمانوں کی وہ قسم ہے جو گھر پر آکر تین تین دن کے لیے رک جاتے ہیں،نہ صرف یہ بلکہ اپنی پوری فوج کے ساتھ آتے ہیں،خاص طور پر ان کی آمد عید بارش یا کسی بھی خوشی کے تہوار کے موقع پر ہو جاتی ہے،ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ ایک بار گھر میں داخل ہو جائیں تو پھر واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتے،تعداد کا اگر ذکر کیا جائے تو ایسے مہمانوں کی تعداد کم ہے،مگر یہ قلیل ہونے کے باوجود اپنا کام تمام کر کے جاتے ہیں۔

مغرور مہمان:

ان میں صرف برائی ہی نہیں بلکہ تھوڑی سی اچھائی کا عنصر بھی ہے،وہ یہ کہ یہ آ کر کسی ایک جگہ پر ٹک کر، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں،ان کے انداز کچھ نرالے ہیں،جب ان کو چائے بنا کر دی جائے تو یہ چائے سے پہلے پانی کا مطالبہ کرتے ہیں،چائے کی پہلی چسکی بھرنے کے بعد ان کو یاد آتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری ہے مثلا شوگر ہے،لہذا ان کے لیے دوبارہ بغیر چینی کی چائے بنائی جاتی ہے، چاے بن جانے کہ بعد ان کو یاد آتا ہے کہ یہ چائے صرف صبح میں پیتے ہیں،لہذا سارے خلوص کی والدہ ہمشیرہ ہو جاتی ہے،دل تو چاہتا ہے کہ ان کو جی بھر کے باتیں سنائیں،لیکن کیا کریں ،ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے،ایسے مہمانوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جو کے قابل تشویش عمل ہے۔

سست مہمان:

ایسے مہمان گھر میں داخل ہی ہانپتے ہوئے ہوتے ہیں،ان میں خاص کر خواتین شامل ہوتی ہیں،یہ لوگ آتے ہی پریشانیوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔

ان کو گھر نہیں ملا، راستہ دور ہے، گھٹنوں میں درد ہے، سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں اور پتا نہیں کیا الا بلا۔ یہ لوگ دیکھنے میں ہٹے کٹے موٹے تازے ہوتے ہیں۔ایسے مہمان بھی کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور بہت عام پاے جاتے ہیں۔

آتش فشاں مہمان:

ان لوگوں کی عادت ہوتی ہے دوسروں کی خوشیوں میں مسلے پیدا کرنے کی،یا رنگ میں بھنگ ڈالنے کی،ایسے لوگ اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ہمیں سچ بولنے مجبور کردیا گیا تھا،یہ لوگ شادی بیاہ یا دیگر کسی بھی قسم کی تقریبات میں اپنے پرانے جھگڑے لے کر بیٹھ جاتے ہیں،ایسے افراد کی تعداد کم ہے ہر خاندان میں دو چار اس طرح کے مہمان لازمی موجود ہوتے ہیں۔

قحط زدہ مہمان:

ایسے مہمانوں کے آگے اگر کھانے کو کچھ پیش کیا جائے تو وہ پلیٹ کو دھو کر واپس کرنا ضروری سمجھتے ہیں،ان کو جتنا بھی کھلا پلا دو ان کا پیٹ نہیں بھرتا،یہاں تک کہ خدا حافظ کہنے کے بعد بھی ان کو چائے یا کولڈ ڈرنک پینا یاد آ جاتا ہے اور ایک گھنٹہ مزید قیام کر کے جاتے ہیں،ایسے مہمان بھی بہت عام ہیں ہیں اور بکثرت پائے جاتے ہیں۔

اب آپ سچ سچ بتائیے آپ کا اب تک کتنی اقسام کے مہمانوں سے واسطہ پڑ چکا ہے ۔

نوٹ:

(آخر میں حقیقی اور سچی بات اگر کہوں تو یہ سب صرف اور صرف مذاق کے موڈ میں کہہ دیا ہے،حقیقت میں مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اپنا رزق خود ساتھ لاتے ہیں،اور ایک اچھا انسان وہی ہوتا ہے جس کا لین دین زیادہ ہو، آنا جانا زیادہ ہو، اخلاق اچھا ہو، ہو آنے والوں سے تمیز سے پیش آئے،اور مہمان داری کرنے کے گر جانتا ہوں۔)

Advertisement
Back to top button