تاریخ اور ادبثقافتخبریں

ثقافتی ڈرامہ

وسیع الدین اکاش

‎جمعے کی صبح محمد علی مجاہد صاحب کی کال آئی اور مجھے بتایا گیا کہ اسلام آباد میں چار روزہ پروگرام کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں چترال اور گلگت کی ثقافت کے ساتھ کاروباری اور سیاحتی مواقع سے بھی چترال سے باہر کے لوگوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی ۔ اس پروگرام کی اختتامی تقریب میں بحثیت سٹیج سیکٹری مائیک سنبھالنے کے لئے مجھے مدعو کیا گیا ۔ تو میں نے بھی فورا ہاں کر دی اور اسلام آباد چلا گیا ۔ ہفتے کے دن مجھے کال کر کے بلاگیا کہ کوئی منسٹر ارہے ہیں تو آپ اجائیں ۔ میں قریبا ۴ بجے سٹیڈیم میں پہنچا تو مجاہد صاحب نے استقبال کیا اور مجھے ایک میڈم سے ملایا ۔ جن کا تعارف ڈاکٹر عائشہ نام سے کروایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ایونٹ کی سپانسر ہیں اور ایوبٹ انعقاد میں بھی ان کا بہت کردار ہیں ۔ سلام دعا کے بعد میں سٹیج پر گیا تو وہاں سیاسی شخصیت عبدالطیف، علاو الدیں عرفی ، حاجی میر اعظم اور چار لڑکیاں براجمان تھے ۔ مجھے بیٹھنے کے لئے جگہ دی گئی اور ساتھ والی کرسی پر لڑکی سے تعارف ہوا تو وہ کوئی ٹک ٹاکر تھیں ۔

‎ مجھے بتایا گیا کہ یہ پروگرام النور ٹریول اینڈ ٹورز اور قشقار ٹورزم جی سی چترال کے اشتراک سے کرا رہا ہے ۔ تقریب شروع ہونے سے پہلے ڈاکٹر عائشہ میرے پاس آئیں ۔ اور بنا کسی تمہید کے کہنے لگیں میں چترال آئی تھیں اور چترال کے لوگوں کو بہت مختلف پائی ، چترال کی ثقافت مہمان نوازی اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا ۔ اور میں نے سوچا کہ اسلام آباد میں ایک ایسا پرگرام کا انعقاد کیا جائے جس میں ہم چترال دنیا کو دکھا سکے لیکن چترالی ثقافت اور سیاحت سے منسوب اس پروگرام میں آپکو ثقافت یا صحافت سے متعلقہ کچھ دکھائی رہا ہے؟ میں خاموش رہا تو کہا کہ صبح سے یہ لوگ کچھ ٹک ٹاکرز لڑکیوں کو لاکر سٹیج پر بٹھائے ہوئے ہیں اور فٹبال میچ کھیلا جارہا ہے اس میں چترالی ثقافت کہاں ہے؟ ہم یہاں لوگوں کو چترال کے بارے میں کیا دکھا رہے ہیں ؟ میں کچھ کہتا کہ اس سے پہلے وزیر ثقافت شوکت یوسفزئی صاحب تشریف لائے میں مائیک پہ گیا انکو خوش آمدید کہا ۔

‎ مختصر تقریب اختتام کو پہنچی تو جی سی چترال کے ایک ملازم میرے پاس آئے اور بہت جذباتی ہوکر مجھے کہنے لگے کہ ہم نے ۔۔۔۔ پیسے خرچ کیے ہیں آپکو ہمارا ذکرکرنا چاہئے تھا اور تعریف کرنا چاہیے تھی ۔ اسکے بعد دیکھا تو جی سی ہومز کے ڈائریکٹر میرے پاس آ رہے ہیں میں ملا تو یہی باتیں دہرانے لگے تو میں نے بہت احترام سے کہا آپ نے جس کو پیسے دئیے ہیں اس سے جاکے پوچھیں ۔ تھوڑی دیر میں دو گلگتی نوجوان میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ آپ نے چترال اور گلگت کی ثقافت پہ بہت زور دیا ، فٹبال ہماری ثقافت تو نہیں ؟ اسکے علاوہ یہاں کچھ ہے نہیں ؟  

‎اسکے بعد میں نے مجاہد صاحب کو یہ احوال سنایا تو اس نے بتایا کچھ مسلے ہیں حل ہو جائیں گے کل ایسا نہیں ہوگا ابھی کے لئے معزرت۔ میں نے یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہوا کہ اگر یہ اسی طرح ہی رہنا ہے تو میں کل کے لئے نہیں آسکتا اور اگر مسلہ حل ہو جاتا ہے تو مجھے فون پہ بتا دیجئے گا۔ نکلنے سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ سے بات ہوئی تو وہ بہت فکر مند تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ کل کا بھی کوئی پلان واضح نہیں ۔ بہرحال مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن میں وہاں سے نکل آیا ۔

‎مجاہد صاحب سے فون پہ بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگ اس پروگرام کو کامیاب کروانا نہیں چاہتے ۔ آپ کل آجائیے گا ہم کل پروگرام اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ثقافتی انداز سے کریں گے ۔

‎اس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے کال کی اور وہ اس وقت بھی فکر مند تھیں اس بات پہ کہ ہمارے پاس لوگوں کو دکھانے کے لئے چترال سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور مختصر سے وقت میں اب کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ اور دوسری طرف حاجی میر اعظم کہہ رہے ہیں کہ کل کے پروگرام کی وہ میزبانی کریں گے۔ ہم نے اتنا وقت دیا ہے اور پیسے بھی لگائے ہیں تو ہم کیسے آخری دن پرگرام کسی اور کے حوالے کریں ؟ بہرحال فیصلہ یہ ہوا کہ کل۱۲ بجے میٹنگ میں فیصلہ ہوگا ۔ ۱۲ بجے میں بھی پہنچا تو گراونڈ میں ہر طرف میر اعظم صاحب نے اپنی کمپنی کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے اور گراونڈ میں اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھے ۔ اور انکا مطالبہ تھا کہ اس ڈاکٹر خاتون کو اس پروگرام سے فارغ کیا جائے ہم ہر قسم کی مالی معاونت کے لیے تیار ہیں ۔ میں محمد علی مجاہد ، عبدللطیف اور ڈاکٹر عائشہ کے ساتھ ایک مختصر میٹنگ میں بیٹھا ، مجاہد صاحب نے میر اعظم صاحب کی طرف سے کئے گئے انتظامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ سب انہوں نے ہمیں بتائے بغیر رات کو کیے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے تحفظات کے بارے میں بتایااور کہا کہ آج ہم آخری دن اپنا پرگرام کیسے کسی اور کے حوالے کریں ؟ جو بھی ہو میزبانی ہم کریں گے ۔ میں یہ بتاتے ہوئے وہاں سے نکل آیا کہ میں کسی بھی گروپنگ کا حصہ بننا نہیں چاہتا ۔ کوئی بھی فیصلہ ہو جائے تو مجھے بتا دیجئے گا ۔ اور ساتھ میں ہی تریچمیر بیک پیکرز کی طرف سے منعقدہ چترال یوتھ فیسٹول میں چلا گیا ۔ دو گھنٹے بعد مجھے ڈاکٹر کی طرف سے کال آئی تو وہ بہت مایوس تھیں کہ چترال والوں نے میری چترال سے محبت کا یہ صلہ دیا کہ میں اپنا وقت اور پیسہ لگا کر جو پرگرام کیا آخر میں آکر مجھے اس سے الگ کیا گیا ۔ اور مجھے کہ رہے ہیں کہ آپ مزید اس پروگرام کا حصہ نہیں ۔ میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا بہرحال میں بحثیت چترالی شرمندہ ہونے کا کہہ کر فون بند کر دیا ۔ جب دوبارہ گراونڈ میں آیا تو میر اعظم صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور فاتح کشمیر کی مانند اکڑ کر چل رہے تھے ۔مجاہد صاحب پریشانی کے عالم میں بھاگ رہے تھے گراونڈ میں کچھ لوگ ٹک ٹاک بنا رہے تھے ۔ فٹ بال فائنل میچ شروع ہونے کو تھا۔ گراونڈ میں کوئی سٹال نہیں تھا ۔ کوئی چترالی کھانا نہیں تھا، کوئی چترالی ٹوپی نظر نہیں آرہا تھا، کوئی دستکاری نہیں تھی، کچھ پینٹ شرٹ میں ملبوس لوگ ڈھول کی دھن میں ناچ رہے تھے ۔نہ کہیں چترال تھا نہ گلگت ۔ نہ کہیں ثقافت تھی اور نہ کہیں سیاحت

‎کی بات ہو رہی تھی ۔ اس طرح ایک ایسا ایونٹ جسے ایک ایسی خاتون جو کہ چترال سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود چترالی ثقافت کی محبت اور سیاحت کی ترویج کے لیے منعقد کروا رہی تھیں، انتظامی نااہلی اور ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھ کے مکمل ناکام رہا.۔

‎ثقافت سے محبت، شناخت پہ فخر اور اپنی زمین کی خوبصورتی کو دنیا سے متعارف کروانا اور دوسرے لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کر کے سیاحت اور تجارت کے مواقع پیدا کرنا چترالی کمیونٹی کا فرض ہونا چاہیے تھا ۔کہ وہ بے لوث ہو کے اس مقصد کے لیے کوشش کرتے لیکن یہاں ذاتی مفاد، نام، اور اپنی واہ واہ کروانے کی کوشش نے سب کچھ برباد کر دیا ۔ساتھ ہی سپانسرز کے سامنے اپنے علاقے کے لوگوں کی خود غرضی کو اشکار کیا ہے ۔ بحیثیت چترالی یہ سب میرے لیے بہت شرمندگی اور افسوس کا باعث ہے- 

مستقبل میں اس طرح کی کسی بھی شرمندگی والی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انتظامات نیک نیتی کی بنیاد پہ ہونے چاہیے نہ کہ ذاتی مفاد کو پیش نظررکھ کے ۔تاکہ چترالی ثقافت کو بھرپور ترویج مل سکے۔

‎میری گزارش ہے کہ‎ادبی حلقے کی طرف سے اس طرح کے پرگرامات کے خلاف ایکشن لیا جائے تاکہ دوبارہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہو

Advertisement
Back to top button