تعلیمخبریںکالم نگار

کے۔ پی ۔پی۔ ایس ۔سی اور مقدس جانبداری

اکبر حسین

 

 

 

پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخواہ کے اوپر بلاوجہ تنقید خصوصاً تحریک انصاف کی شفافیت کے دعویدار دور حکومت میں شاید موزوں نہیں۔ عام مشاہدے میں بھی یہ بات آرہی ہےکہ کسی حد تک میرٹ کی پاسداری کی جا رہی ہے۔لیکن جہاں تک تدریس سے وابستہ آسامیوں کی انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے تو اس میں ایک مقدس طرف داری کا عنصر میرٹ کا گلہ گھونٹ کر رکھ دیتا ہے۔

 ہوتا یوں ہے کہ انٹرویو پینل میں موجود ماہر مضمون صاحب یا صاحبہ کسی ایک مخصوص جامعہ سے تعلق رکھتا /رکھتی ہے اب اس کا کوئی طالب علم اگر سامنے آجائے تو بھلے وہ کچھ سوالات کا درست جواب دے یا نہ دے پائے استاد محترم /محترمہ کی طرف سے دست شفقت بڑھانا فطری عمل ہے۔ 

میرا مطلب کسی مخصوص فرد کو نشانہ بنانا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمومی تاثر ہے جو درس و تدریس کی آسامیوں کیلئے انٹرویو دینے والے امیدواروں سے (خواہ وہ کامیاب ہوئے ہوں یا معاملہ اس کے برعکس ہو )اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے موقع پر پھر استاد اور شاگرد دونوں کا ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے کہ چلو اس مقدس رشتے کے طفیل اتنا کرناتو بنتا تھا لیکن اس مشفقانہ فعل سے کسی اور کا جائز حق غصب کردی جاتی ہے۔ 

حال ہی میں میرے ایک دوست کےلیکچر رشب کا انٹرویو لیا گیا تھا۔ بیچارہ کافی مطمئن تھا کہ انتہائی تسلی بخش ہوئی ہے۔ بندہ بڑا ذہین اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ انٹر /انٹرا پرسنل مہارتوں کا مالک بھی ہے۔ پر اعتماد اس وجہ سے بھی تھا کہ ایبیلیٹی ٹسٹ کے سکور بھی اچھے تھے اور اوپن میرٹ کا ہدف حاصل کر لیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آخر میں نتیجہ خلاف توقع ہی نکلا۔ موصوف اپنے ہی کسی دوست کا نام لیے بغیر ذکر کر رہا تھا کہ اس پرتو قسمت کی دیوی استاد محترم کے روپ میں مہربان ہو چکی تھی۔

حق تلفی کسی لالچ کی وجہ سے کی جائے یا پھر بےلوث محبت و شفقت کا نتیجہ ہو دونوں صورتوں میں نا جائز ہے۔

لہذا پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین صاحب سے گذارش ہے کہ اس معاملے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔انٹرویو سے پہلے امیدوار کی پروفائل اور پینل میں موجود ماہر تعلیم کی پس منظر کا ایک نظر جائزہ ضرور لی جائے۔

Advertisement
Back to top button