تورکھوسماجی

عوام تورکہو کے ساتھ زیادتی کیوں؟

قاضی نذیر بیگ

جو لکھ نہ پاؤ اگر محبت پہ بس اذیت پہ شعر لکھو
تمہاری وحشت کا واسطہ ہے کسی بھی قیمت پہ شعر لکھو

عزیزاں گرامی ناچیز کو سوشل میڈیا پہ طبع آزمائی کو کافی زمانہ ہوگیا اپنی بساط کے مطابق معاشرتی و سماجی امور پر بات کرتا رہا ہوں ۔ جب بھی بات کی ہے محبت امن اور بھائی چارے کو ہی مقرب مانا ہے اور میرا ماننا ہے کہ دو دن کی زندگی میں محبتوں کے سوا کسی دوسرے معاملات میں الجھنے سے کچھ بھی نہیں ملنے والا ہے ۔ اگر ملنے والا ہے تو وہ دو گز کفن اور دو گز زمین اور اس کے بعد پیچھے رہنے والوں کی دعائیں بس ۔
میں کسی بھی لحاظ سے کسی سے بھی نفرت کا متحمل اس لئے نہیں ہوں کہ جس سے نفرت کی گنجائش ہے ان ہی سے میرے گزر جانے کے بعد میری معفرت کی دعاؤں کی امیدیں بھی ہیں ۔ اسلئے میں نے ہمیشہ سے محبت کو ہی فروغ دی ہے ۔ خواہ میں کسی محفل میں ہوں یا کسی تحریر میں یا کہیں ٹوٹی پھوٹی اشعار لکھوں ہمیشہ ہی رواداری ، خلوص، وفا اور محبت کو ہی ترجیح دی ہے ۔ اور الحمداللہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی طرح سیاسی ، مسلکی ، قومی یا علاقائی تعصب سے کسی کا دل دکھایا ہو ۔
مگر بعض دفعہ واقعات ایسے رونما ہوجاتے ہیں جس پر بات کرنی پڑتی ہے ، جہاں زیادتی ہورہی ہو وہاں چپ چاپ بیٹھنا بھی ضمیر گوارہ نہیں کرتا ۔
یہ ایک اسلامی نظریہ ہے کہ جس معاشرے میں زیادتی ہورہی ہو اس کی روکتھام کی کوشش کی جائے نہیں تو اس کی مذمت ہی کی جائے ، آج میں پہلی دفعہ علاقائی زیادتی کو اجاگر کرنے جارہا ہوں ، مجھے معلوم ہے کہ اکثر دوست اس بات پہ ناراضگی کا اظہار فرمائیں گے ان تمام دوستوں سے پیشگی معزرت کے ساتھ چند گذارشات سب کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔
عزیز دوستوں آج سے دس سال پہلے فیس بک کی ایک گروپ پہ اپر چترال کی علیحدگی کے حوالے سے ایک کمپین چلایا گیا ، اور لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی کہ چترال دو ضلعوں میں تقسیم کیا جانا چاہئیے کہ نہیں اس وقت ہمارے اکثر دوست سبھی چاہتے تھے کہ دو ضلعے بننے چاہئے ، میں شاید ان لوگوں میں شامل تھا جو کہتے تھے کہ ہم چترالی ایک ہی ضلعے میں اچھی گزار رہے ہیں کہیں اپر لوئر کے چکر میں ہمارے بیچ میں دراڑیں نہ پیدا ہو اس بات پہ اکثر دوست مجھے ٹوکتے رہے ، خیر ضلع کی بات ہونے لگی اور پھر سوشل میڈیا پہ نو مولود ضلع کے نام کو لیکر ایک طوفان بد تمیزی برپا رہی ، میں نے اس وقت بھی یہی کہا کہ نام چترال کا ساتھ نہ ہو تو ہماری پہچان ہی ختم ہوجائے گی ۔
برائے نام ضلع اپر چترال بن گیا جس کا ابھی تک عام آدمی کو ٹکے کا بھی فائیدہ نہ پہنچ سکا ہاں البتہ سرکاری ملازمین اور بیوروکریٹس کی تعداد میں کچھ اضافہ دیکھنے کو ملا باقی سب کچھ وہی کا وہی ہے ۔ نہ ہی یہاں پہ ڈی ایچ کیو ہسپتال بنایا گیا اور نہ ہی اس کے لئے سوچنے کی زحمت کی گئی اور نہ ہی کسی ایک بی ایچ یو کو تحصیل ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا گیا ، نہ ہی کہیں سکول اور کالج کی بات ہوئی ، اور نہ ہی کہیں پرائیمیری سکول اضافی بنایا گیا ،
میں دور نہیں جاؤں کھوت کے آخری گاؤں پورکھوت میں ایک مکتب سکول جو 1989 میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنالیا تھا تھا جو ابھی تک مکتب ہی ہے ، اس کو پرائیمیری کا درجہ نہیں دیا گیا ، وہاں پہ ایک ٹیچر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہے وہاں چوکیدار بھی وہی ہے ، صفائی بھی اسی کے ذمے آپنا کھانا بھی وہ خود بناتا ہے اور 32 مضامین کو وہ کسطرح پڑھاتا ہے یہ سمجھ سے بالاتر کام ہے ، نونہالان ملت کے ساتھ ایسی زیادتی بہت کم کہیں دیکھنے کو ملتا ہے ،
گورنمنٹ ہائی سکول کھوت جو گزشتہ بیس سالوں سے دہائی دے رہا ہےکہ اس کو ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا جائے ، اس میں حکومت وقت ابھی تک ناکام ہے ، کھوت کی آدھی ابادی کھوت بالا جہان پہ ابھی تک گورنمنٹ کی ڈسپنسری تک نہیں ہے ، ہمارے آنکھوں کے سامنے بزمی صاحب کا جوان سال بھتیجا ایمرجنسی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوگیا اس کا حساب کتاب ہم بحیثیت عوام مانگے تو کس سے مانگے ؟
ان سب کے باوجود ہم بحیثیت قوم ملک کی قوانین کا احترام بجا لاکر اس امید سے ووٹ دے رہے ہیں کہ نمائیندے کام کرے یا نہ کرے یہ دھرتی ہماری ہے ، اس مٹی کی خاطر ہم مر مٹنے کو تیار ہیں ، مگر گزشتہ کچھ سالوں سے تورکہو کا علاقہ انتہائی زیادتی کا شکار ہے ۔ جن کا ازالہ کرنا حکومت وقت کی زمہ داری تو ہے مگر اس کے ساتھ بحیثیت عوام اپر چترال کی بھی معاشرتی زمہ داری ہے کہ وہ اس زیادتی کی مخالفت کرکے تورکہو کے عوام کو ریلیف دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ تورکہو کی عوام تحصیل موڑکہو تورکہو کے چکروں میں اپنی ساخت اور شناخت بھی کھونے والی ہے ۔ خدا را اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھاجائے ۔
اپر چترال ضلع بننے کے بعد تحصیلوں کو آپس میں ملایا گیا ، ہم تورکہو والے جہاں بونی میں آکر اپنے دفتری مسائل حل کرکے جاتے تھے اب وہ دفاتر بھی موڑکہو منتقل ہوگئے ، یہ موڑکہو والوں کے لئے بظاہر آسان لگتا ہے مگر انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ یہ سب کچھ کرنے سے پہلے اویر سے لیکر تیریچ اور تورکہو کے آخری گاؤں کھوت اور ریچ کی عوام کی خیر خواہی بھی چاہتے ، ہمیں صبح چترال کا کرایہ دیکر بونی میں آنا پڑتا ہے اور وہاں سے پھر موڑکہو کی طرف جانا پڑتا ہے کام اگر ایک ہی دستخط کا ہی کیوں نہ ہوں دو دن کی خواری بھی ہمارے ذمے دال دی گئی ہے ، حلانکہ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ یہ دفترات بونی میں ہوتے موڑکہو کی عوام بھی اتنا ہی مستفید ہوتے جتنا تورکہو اور دوسرے علاقے کے لوگ ہوتے ۔ صرف معاشی ترقی کی خاطر موڑکہو دفترات تو شفٹ کئے گئے مگر دوسرے علاقے کو لوگوں کی تکلیف کا کیا؟ کیا کوئی ہے پوچھنے والا ؟ کیا کوئی ضمیر کا زندہ انسان اس وقت دنیا میں ہے جو اس زیادتی کا ازالہ کرسکے ۔
یہ خیر ہونے والے انتخابات کے لئے بھی ماشاءاللہ تمام امیدواروں کو موڑکہو سے ہی چننے جانے کے انکشافات ہیں ، کیوں آخر ایسا کیوں ؟ کیا ہم نے ووٹ نہیں دینا ہے ؟ کیا پاکستان کا شناختی کارڈ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اگر پانج نمائندے موڑکہو سے ہو تو کم از کم چار تو تورکہو سے ہونے چاہئیے ۔ یہ نہیں کہ ہر کوئی الیکشن میں جیت جائے گا مگر اسلامی نظریات کو بروئے کار لاکر انصاف کیوں نہیں کیا جارہا؟ اس کے زمہ داران کون ہیں ؟ کیا تورکہو کے ساتھ اس طرح کا روا رکھنا انصاف ہے ؟ ان سوالات کا جواب بھی درکار ہے۔ ہم بھرپور مزاحمت اور مذمت کا کا حق بھی رکھتے ہیں۔ زیادتی ایک برداشت ہوتی ہے ، ہر بات پہ ہر بار ہر گز نہیں ۔ پلیز ہمیں سمجھا جائے ۔
ان سب کے باوجود اب تو لکھت پڑھت میں بھی تحصیل موڑکہو تورکہو لکھا جارہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ ماضی قریب میں تورکہو کے نام کو مٹانے کی بھی مذموم کوشش کی جارہی ہے ، ضلع اگر الگ ہوگئے ہیں تو تحصیل بھی الگ ہوجاتے ، کیوں ضلع کی آڑ میں ہم سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے ۔ اب جب تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی بات ہوگی تو وہ بھی ظاہر سی بات ہے موڑکہو میں ہی بنایا جائے گا ، کیا کسی نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تورکہو کے عوام بھی بیمار ہوتے ہیں ، ان لوگوں کو بھی ہسپتال کہ ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ ہمارے نمائندے اس بات کو سنجیدگی سے لیکر سوچ لے کہ تورکہو کی عوام کی خیرخواہی اسی میں ہے کہ بی ایچ یوز کو اپگریٹ کرایا جائے ، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال شاگرام میں بنایا جائے ، دوررفتادہ دیہات میں ڈسپنسریز بنائے جائے ۔ تاکہ ہمیں بھی احساس ہو کہ ہم لوگ نئے ضلعے میں خوشحال سے جی رہے ہیں ۔
دل کی بات یہ ہے کہ تورکہو ہماری پہچان ہے ، اس سے ہم سے چھینے کی کوشش نہ کی جائے اگر واقعی میں تحصیل تورکہو وڑکہو یک جان دو قالب ہیں تو مہربانی فرما کر نام بھی تحصیل کہو رکھا جائے ۔ شکریہ

Advertisement
Back to top button