اپر چترالتعلیمچترالیوں کی کامیابیکالم نگار

آغا خان سکول کہوت کا قیام اور اس کا علمی سفر

 

سردار علی سردار

 

کہوت وادی تورکہو کےشمال مشرق میں سطح سمندر سے تقریبا 9930 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور تورکہو کے خوبصورت اور دلنشین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ کسی علاقے کی خوبصورتی نہ صرف یہاں کی ثقافت، تہذیب و تمدن اور معزز لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے نمایاں ہوتی ہے بلکہ تعلیم،تعلیم یافتہ افراد اور تعلیمی ادارے بھی کسی علاقے کی ثقافتی حسن میں شمار ہوتے ہیں ۔لہذا تعلیم کو فروع دینے میں سرکاری اور پرائوٹ اداروں کے ساتھ ساتھ آغا خان ایجوکشن سروسز بھی اپنی روشن روایات اور زرۤین اصولوں کے مطابق علاقے میں علم کا دیا جلانے میں پیش پیش ہے۔ آغاخان ہائی اسکول کہوت آج جس مقام پر قوم کے نونہالوں کے علم کی آبیاری میں اپنا حصۤہ ڈال رہا ہےوہ جدید دور کے تقاضوں اور گلوبل دنیا کے چیلنجیز کے عین مطابق ہے ۔
آغاخان سکول کہوت کا علمی سفر کب شروع ہوا اور آج اس کی پوزشن کیا ہے ؟کے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔

یہ 1982 ء کا زمانہ تھا جب سردار ولی صاحب ( موجودہ بونی دوکاندہ) گورنمنٹ مڈل اسکول کہوت کے انچارچ ٹیچر تھے۔موصوف ایک با اصول، دیانت دار اور اپنے کام سے مخلص شخصیت کا مالک ہے ۔ اور وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق مزکورہ اسکول میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں پیش پیش تھے۔آپ کی انہیں خوبیوں اور انتظامی معاملات میں تجربہ ہونے کی وجہ سے آغاخان ایجوکشن سروسز کی طرف سے چیرمین شپ کا اضافی عہدہ بھی آپ کو دیا گیا تھا جس کی بنا پر آپ اپنے فارغ اوقات میں اس اعزازی ذمہ داری کو بھی بہ حسن و خوبی انجام دیتے تھے۔
اُس زمانے میں تعلیم عام نہیں تھی اورخصوصی طور پر چترال کے دور افتادہ علاقوں کی بچیوں کے لئے تعلیم تک رسائی ممکن نہیں تھی ۔آغاخان ایجوکشن سروسز نے ایسے علاقوں کی بچیوں اور بعد میں محدود تعداد میں بچوں کی تعلیم کے لئے پرائمری اسکول کھولنے میں کوشان تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے استاد سردار ولی صاحب نے اے کے ای ایس کے اعلیٰ عہدہ داروں سے بات چیت کی اور کہوت میں آغاخان اسکول کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔جب اسکول کی منظوری دی گئی تو یہ اسکول پہلی دفعہ لشٹ دور کے مقام پر محترم دل تھینی کے گھر میں شروع ہوا جس کو موصوف نے اے کے ای ایس کے لئے عطیہ کیا تھا ۔یہ اسکول تاریخ کے کئی دشوار گزار اور کٹھن راستوں سے گزر کر آج ہائی اسکول کی پوزیشن پر قائم ہے اور چترال کے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہء طالبات مختلف عہدوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہوئے باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

آغاخان پرائمری اسکول کہوت میں اُس وقت کم وبیش 30 طلبہ و طالبات داخلہ لے چکے تھے جن کی درس وتدریس کے لئے میر اعظم خان کو کھوژ سے لایا گیا تھا جسے کہوت میں اسکول کے پہلے ٹیچر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اور وہ اس نوخیز اسکول کی آبیاری کے لیے دن رات ایک کرکے بچوں کو پڑھایا اور ان کی علمی اور اخلاقی تربیت کی۔اگلے سال میر اعظم خان کو یارخون ٹرانسفر کرکے کہوت ہی سے علی نواز کو اس کی جگہ نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ اور وہ بھی محنت اور جانفشانی سے بچوں کی تعلیم وتربیت میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پڑھانے لگے۔
1984ء میں یہ اسکول دل تھینی کے گھر سے نغورانٹیک یعنی ریاستی بلڈنگ میں منتقل کیا گیا جہاں شیر وزیر شاہ کہوت قوزیاندور ہی سے جبکہ داود نظر کو یارخون سےاس میں اضافی استاد مقرر کیا گیا۔لیکن بہت جلد داود نظر کو ٹریننگ کے لئے بھیج دیا گیا اور اس کی جگہ مس نواز کو میرٹ کی بنیاد پر نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ نغورانٹیک کا یہ اسکول دو سال تک جاری رہا پھر بچوں کی تعداد زیادہ ہونے اور مذید جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی معقول ماحول کی ضرورت محسوس ہوئی۔

اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میر حکیم بیگ کی مدد لی گئی اور وہ گیسو زیارت کے قریب لشٹ دور میں پانچ کمروں پر مشتمل ایک نئی عمارت اسکول کے نام پر تعمیر کی اور اسے اے کے ای ایس کو کرایئے پر دےدیا ۔ 1986ء میں یہ اسکول نوغورانٹیک سے نئی عمارت میں منتقل ہوا اور نئے ٹیچرز کی تقرریاں بھی عمل میں آئیں جن میں مرحوم میرزا ولی صاحب، شیر وزیر، میرافضل المعروف پہلوان، نادر غلام، رحمت خان اور رحمت ولی صاحبان قابل زکر ہیں۔ان تمام قابل اورمحنتی اساتذہ کی اشتراک اور تعاون سے اسکول کا نظام اور تعلیم و تدریس کا عمل درست طریقے سے آگے بڑھا اور بچوں میں سیکھنے اور محنت کرنے کا جزبہ دن بدن پروان چڑھتا رہا اور یہ سلسلہ سات سال تک قائم رہا۔ اچانک کہوت جیسے علاقہ کے پرامن اور پرسکون ماحول کو کسی کی نظر بد لگ گئی ! اور کہوت میں سیاسی ، نسلی اور قبائلی اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ موقع شناسوں نے بہت جلد اس کا رخ مذہبی اختلافات کی طرف موڑ دیا اور مذہب کو بے رحمی سے اس کا اندھن بنا دیا! جس سے آہستہ آہستہ کہوت کے مہذب اور ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنے والے لوگوں میں مذہبی اختلافات و چپقلش کی بو آنے لگی اور میرحکیم بیگ کو آغاخان اسکول کہوت کو بند کرنے کے لئے دھمکیاں مل گئیں جس کے نتیجے میں میر حکیم بیگ نے مجبوراََ لوگوں کے اس مناقشانہ رویئے کو دیکھ کر مزکورہ اسکول کو تالا لگاکر بند کردیا جس کی وجہ سے اسکول کے یہ معصوم بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہوئے اور کئی بچے گھروں میں بیٹھ گئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاشرے کے سارے لوگ ایک دوسرے کے مخالف تھے اور وہ اس قسم کی شرپسندی کو ہوا دے رہے تھے ۔

اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی معاشرہ امن کا گہوارہ ہوتا ہے ۔تاہم معاشرے کے مہذب اور عزت دار لوگوں نے اس واقعےکی بھرپور مزمت کی ۔اللہ کا کرم یہ ہوا کہ کہوت ہی کے سنجیدہ و فہمیدہ ، پرامن اور علم دوست افراد کی کوششوں کے نتیجے میں حالات بہتری کی جانب آنے لگیں اور معاشرے میں امن دوبارہ بحال ہوا۔
اور اسکول کو دوبارہ آزاد کرنے اور چلانے کے لیےڈپٹی کمشنر چترال کی طرف سے کچھ خیمے ڈونیشن دئے گئے جنہیں مراد دوست خان لال کی زمین میں نصب کر کے کلاسز ان خیموں میں دوبارہ شروع کی گئیں ۔خان لال( خدا اس کی روح کو دائمی سکون نصیب کرے) معاشرے میں ایک معزز اور اہم شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے نے اسکول کو دوبارہ دوسری جگہ تعمیر کرنے کے لئے اپنی زمین وقف کی جس پر لوگوں نے نِئے جزبے اور شوق کے ساتھ دن رات ایک کرکے صرف دو مہینوں کے اندر سات کمروں پر مشتمل نئی عمارت تعمیر کی۔1992ء کو خیموں میں جاری رہنے والی کلاسس اس نئی عمارت میں منتقل ہوئیں۔ بچوں اور والدین میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی اور وہ شوق اور والہانہ جزبے کے ساتھ اسکول آنے لگے۔ 1993 ء میں اسکول کو مڈل میں ترقی دی گئی اور نئے ٹیچرز مقرر کئے گئے جن میں سردار ولی (چرون والا) اور رحمت نواز کہوت لوگار وغیرہ شامل ہیں۔ 1994ء میں لوگوں نے باہمی مشاورت اور اتفاق سے اسکول میں (Community bases School) CBS کے نام سے نویں اور دسویں جماعت کے لئے مقامی اساتذہ کی مدد اور تعاون سے کوچنگ کلاسس بھی شروع کیں یہ اساتذہ ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ کمیونٹی کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے جنہیں AKES کی طرف سے وقتاََ فوقتاَ َ پروفیشنل ٹریننگ دے کر درس و تدریس کے اہل بنایا گیا تھا ۔ ان اساتذہ میں شیر عزیز بیگ، میر گلاب،رشیدہ اور پھوک کائے قابلِ زکر ہیں جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق بچوں کو پڑھایا اور اُن کو تعلیم دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے بچوں میں قابیلیت اور ہنر پیدا کرنے کے لئے بے حد کوشش کی جس کے نتیجے میں اکثر بچے بورڈ کے سالانہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوکر گورنمنت کالج میں ایڈمشن لیکر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔
اے کے ای ایس سکول کہوت کا علمی یہ سفر آگے بڑھتا رہا ۔ والدین ، اسکول کے انتظامیہ اور درس و تدریس سے مطمئن ہوکر ہر سال اپنے بچوں کو یہاں داخل کراتے رہے لیکن زمانے کے تیز رفتار حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق اسکول کی کچی عمارت اس قابل نہیں تھی کہ ان کی ضروریات کو پورا کرسکے اس لئے انہوں نے اسکول کے لیے پکی عمارت تعمیر کرنے کے لئے اے کے ای ایس کے اعلیٰ حکام سے گفت و شنید کے بعد خان لال سے مذید زمین کا تقاضا کیا جس کو موصوف نے خوشی ، فیاضی اور دریا دلی سے قبول کیا اور انہیں اسکول کو اپنی زمین پر از سرِ نو جدید طریقے سے تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔اے کے ای ایس نے اپنے منشور اور پالیسی کے تحت سکول کو جدید طرز تعمیر کے مطابق از سرِ نو تعمیر کیا ۔ اور 2005ء کو اسکول کے تمام بچوں کو پورانی عمارت سے نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل کیا گیا جہاں انہیں ایک نیا خوبصورت علمی ماحول میسر آیا اسکول کے اساتذہ اور بچوں میں خوشی کی انتہا نہ رہی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ شوق اور لگن سے محنت کرنے لگے۔دسمبر 2011 ء کو اسکول کے سینئر ٹیچرز کی اعزازی ریٹارڈمنٹ کا عمل بھی شروع ہوا جس میں مس نواز ، علی نواز، مرحوم میرزا ولی، شیر وزیر اور میر افضل بھی شامل تھے۔ اور یہ اپنے زمانے کے بہت ہی محنتی،اپنے پیشے سے مخلص اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک اساتذہ میں شمار ہوتے تھے جن کی شب وروز کی محنت بچوں میں تعلیم کے لئے دلچسپی اور اپنے خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا زریعہ بنیں۔
2016 ء کو اے کے ای ایس سکول کہوت کو ہائی اسکول میں ترقی دی گئی اور اس کے لئےجدید دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر ، قابل اور پیشہ ور اساتذہ کو ٹیسٹینگ اور میرٹ کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ۔انہوں نے جدید طریقہائے تدریس کے مطابق بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی جس سے اسکول کی تعلیمی معیار روز بروز بہتر ہوتی گئی اور بچوں کی خوابیدہ صلاحیتیں نکہرگئیں۔

علاقے کے تمام لوگ اسکول کی تعلیم سےمطمئین ہوئے اور اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کے لئے تگ و دو کرتے رہے۔اے کے ایس اسکول کہوت کی تاریخ میں ایسا زمانہ بھی تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانے کے لئے راضی نہیں تھے لیکن آج زمانہ بدل چکا ہے لوگ اے کے ای ایس کی تعلیمی معیار سے زیادہ مطمئین ہیں اور یہاں کی درس و تدریس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس وقت اے کے ای ایس اسکول کہوت میں 18 اساتذہ مختلف مضامین کو پڑھانے کے لئے اسکول میں ہمہ وقت حاضر ہیں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے۔ بشیرالدین اس وقت اس اسکول کے ہیڈ ٹیچر کی حیثیت سے اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے ۔ موصوف آغاخان یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں اور وہ جدید دور میں اچھا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق ، دیانت دار، اپنے پیشے سے مخلص اور ایک اچھے انسان بھی ہیں اور وہ معاشرے میں ہر وقت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اس اسکول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں ECD (قبلِ مدرسہ تعلیم) تعلیم بھی دی جاتی ہے جنہیں ابتدائی تعلیم دینے کے لئے ایک تربیت یافتہ استانی شازیہ بی بی مقرر ہیں جس کی تین سال کی ابتدائی تعلیم و تربیت بچوں کو آگے بڑھنے اور مذید تعلیم کے لئے شوق اور دلچسپی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ کھیل کھیل میں تعلیم کے بنیادی اصول اور قواعد سے آشنا ہوکر پرائمری ون میں داخل ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ ECDمیں بچوں کی آموزش کو فعال بنانے کے لئے AKES کی طرف سے دو تربیت یافتہ کورڈینٹرز عنبرین غزالہ اور امرینہ بی بی بھی مقرر ہیں ۔ وہ ہفتے میں دو دفعہ ECD کلاس کو دیکھتی ہیں اور خود بھی کلاس لیکر بچوں کی درس و تدریس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ یہ سکول بھی اس قسم کے قابل اساتذہ کی زیرِ نگرانی میں ایک دن ہائی سیکنڈری اسکول میں ترقی کرے گا اور وادی کہوت کے طلبہ و طالبات کو اپنے ہی گھر میں بہترین، جدید اور اعلی بین الاقوامی معیار کی تعلیم میسر ہوگی اور وہ اسی تعلیم کی ہی وجہ سے معاشرے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باوقار شخصیت بن کر اپنی ، اپنے خاندان اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھیں گے جس سے آنے والا معاشرہ خوشحال ہوگا اور ترقی کرے گا۔ ان شاء اللہ

Advertisement
Back to top button