اپر چترالتعلیمٹیکنالوجیچترالیوں کی کامیابیموڑکھو

ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی ایڈوکیٹ ہم آپ پہ کتنا بھی فخر کرے کم ہے

قاضی نذیر بیگ

 

خوش مزاجی اور شرارتی حرکات سکنات سے بہت سارے دلوں میں نقش ہو جانے والے ماں باپ کا رحمت سکول کا رحمت عزیز، پھر کھوار اور اردو ادب کا رحمت عزیز چترالی ، پھر وکیل صاحب اور اب ایڈوکیٹ پروفیسر ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی، زمانہ طالب علمی میں ہی انتہائی خوش مزاج ادب دوست اور باذوق رہے ہیں ، بی اے ایل ایل بی کرنے کے بعد کراچی میں وکالت کی پریکٹس کے ساتھ کتاب لکھنے میں زور آزمائی کی اور ایک کھوار اور دوسرا اردو کتاب گلدستہ رحمت اور گلدان رحمت شایع کرکے اس زمانے میں چترال کا چمکتا ہوا ستارہ بن گیا یہ 1997 کی بات ہے جب ڈاکٹر صاحب دو کتابوں کے مصنف ٹھہرے تھے۔ گدستہ رحمت کی جب اشاعت ہوئی تھی اس وقت ہم کراچی میں ہوا کرتے تھے ، موبائل انٹرنیٹ اور دوسری چیزیں نہیں تھی تو کتاب اور وہ بھی کھوار کتاب مل جائے تو سونے پہ سہاگا مانا جاتا تھا ، اس وقت ایک اکلوتی کتاب گلدستہ رحمت ہمارے ہاتھوں میں ہوتا تھا ، اور وہ ہی تفریح کا ذریعہ بنا ہوا تھا ۔ بعد ازاں گلدان رحمت کی اشاعت ہونی تھی اور اس اسوقت ایک اور کتاب "بیاضی” نام سے زیر طبع تھی اور کچھ مہینوں میں اس کی بھی اشاعت ہونی تھی اور یوں ڈاکٹر صاحب کے جانب سے ایک اور کتاب کا تحفہ کھوار ادب کے لئے پیش ہونا تھا ۔ 

مگر کسی نا سمجھ کی شرارت نے ہمیں اسی کتاب "بیاضی” سے محروم کردیا ۔ ہوا یوں کہ اس زمانے میں موبائل یا کمپیوٹر کا دور تو تھا نہیں ہاتھ سے لکھنا ہوتا تھا ، ڈاکٹر صاحب نے بیاضی تیار ہی کر لیا تھا کہ کسی نے شرارت سے چھپا لیا ۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب اتنے غمگین ہوئے کہ چھپانے والے کی ہمت نہیں ہوئی کہ دوبارہ اس کو سامنے لاسکے ۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب اس کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا ، مجھے وہ شعر یاد نہیں البتہ عنواں کچھ ایسا ہی تھا ڈاکٹر صاحب سے معرزت کے ساتھ ۔

 بیاض رے مہ آی داستان چھوغی ہوئے 

ہنون خیالاں گلستان چھوغی ہوئے 

ڈاکٹر صاحب نے ایم اے ایل ایل بی کے بعد اسلام آباد سکریٹریٹ میں اعلی عہدے پر تعینات ہوئے اور یوں کراچی چھوڑ کر اسلام آباد شفٹ ہوگئے ۔ 

ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جڑی بہت ساری یادیں ہیں ان کی مزاج اور شائستگی اور چلبلے پن کو شاید میں بیان نہیں کرپاوں گا اس زمانے کے ان کے یار دوست بہت اچھی طرح ان کو بیان کرپائیں گے مجھے ساتھ بیٹھنے ، کھانا کھانے کے علاؤہ ان کی اداؤں سے محظوظ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 

باقی ان کی پیاری پیاری اداؤں کو محمد علی مجاہد صاحب اور دیگر ہمارے سنئیر احباب بہتر طریقے سے بتائیں گے ۔ کیوںکہ میں خود کو بہت چھوٹا سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو بیان کر سکوں ۔ 

اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنی قابلیت کو یوں آشکار کرنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کی بارشیں ان پر شروع ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب چالیس زبانوں پر مشتمل کی بورڈ تیار کرکے ٹیکنالوجی میں بھی اپنا لوہا منوایا اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لئے اپلائی کرنے والا پہلا چترالی بن گیا ۔ 

ڈاکٹر صاحب نے اب تک شندور ایوارڈ، چترال ہیومن ڈویلپمنٹ ایوارڈ، تمغہ پاکستان، پاکستان یوتھ آئیکون ایوارڈ، یاسراللہ شہید ایواڈ جرمنی کی طرف سے انٹرنیشنل انوویشن ایوارڈ، گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے انوویٹیو انیشیٹیو ایوارڈ ، اور چترال کی ایک تنظیم کی جانب سے ادبی ایوارڈ سمیت ڈاکٹر اے کیو خان گولڈ مڈل ، پرائیڈ آف نیشن گولڈ میڈل اور کئی اعزازی سرٹیفیکیٹ اپنے نام کر چکے ہیں ۔ 

ڈاکٹر صاحب نے ٹی وی پر چترال کی آواز نام سے ایک پروگرام کی میزبانی کے علاؤہ کئی بڑے بڑے پروگرامات میں بحیثیت مہمان بھی شامل ہوئے ۔ 

گلدان رحمت اور گلدستہ رحمت کے علاؤہ ایک انگریزی کے مشہور زمانہ لکھاری جولیزرونے کی کتاب کو 80 بسہ دنیو چکیر کے نام کھوار ترجمہ کے ساتھ ، کھوار قاعدہ، سرائیکی قاعدہ شنا قاعدہ پر بھی اپنی تحقیات مکمل کر چکے ہیں ۔ 

اور ساتھ ساتھ میں انگلش کھوار اردو ڈکشنری کے علاؤہ ، کھوار انگلش گرامر، چترالی کنورسیشن، کھوار گرامر اور کھوار ویکوبلری بک نام سے کتابیں انٹرنیٹ پہ بک رہی ہیں ۔ 

لیکن نہ ہی ان کی محنت کا سلسلہ بند ہوا نہ ہمت ہاری کامیابی کا سفر جوں کے توں جاری ہے ، حالی ہی میں ڈاکٹر صاحب کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے علمی سائنسی اور ادبی تحقیق، لسانیاتی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایجاد اختراع کے شعبے میں نمایاں خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ایچ ڈی ، Doctorate of philosophy کی ڈگری سے نوازا ہے ، اور ہیرا فاونڈیشن یو ایس اے کی جانب سے گولڈ میڈل اور انعامات سے نوازا گیا ہے ۔ 

ہم بحیثیت چترالی ڈاکٹر صاحب کی ان کامیابیوں پر ناز کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یوں ہی ہمیں سرخرو کرتے رہے آمین 

Advertisement
Back to top button