تعلیمچترالیوں کی کامیابیخبریں

دو  معماران ِ قوم کی ملازمت سے سبکدوشی

نثار احمد

تلخ و شیریں
   

 

 اب وہ دور نہیں رہا کہ ملازمت سے سبکدوشی پر ملازم بوجھل اور دل گرفتہ ہوتا تھا۔ اس دور ِ پُرآشوب میں بخیر و عافیت عزت و احترام کے ساتھ ملازمت سے سبکدوشی کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بھی دو ساتھی اساتذہ ریٹائرمنٹ کے عنوان سے ہمیں غم زدہ کر کے ہمارے سکول سے رخصت ہو گئے۔ انہی دو اساتذہ کرام (ماہرِ مضمون چارویلو وقار احمد اور استاذ الاساتذہ محترم سید محمد) کے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ہائیر سیکنڈری سکول ایون کے سبزہ زار میں ایک پروقار الوداعی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پرنسپل احسان الحق (سابق ڈی ای او چترال) سمیت دیگر مقررین نے مدت ِملازمت کی تکمیل کرنے  والے اساتذہ کرام کی لازوال قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا اور تعلیم کے میدان میں  پیشہ ورانہ فرائض کی شاندار انجام دہی پر انہیں خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ یوں یہ پروقار تقریب مفتی میرحسام الدین کے دعائیہ کلمات سے اختتام پذیر ہوئی۔  

اس میں دو رائے نہیں کہ حقیقی استاد رسمی معنوں میں ریٹائر ضرور ہوتا ہے لیکن حقیقتاً کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ معلمی کی نسبت مل جائے پھر وہ تاحیات اس ارفع نسبت کی لاج رکھتے ہوئے معاشرے کے لیے نافع بن کر زندگی گزارتا ہے۔ حقیقی استاد تب تک اپنے شاگردوں اور دوسرے لوگوں کی خیر خواہی میں سرگرداں رہتا ہے جب تک  جسم اور سانس کا رشتہ ٹوٹ نہیں جاتا۔ 

استاد کسی بھی معاشرے کا چہرہ اور آئنہ ہوتا ہے استاد کو دیکھ کر پورے معاشرے کی اخلاقی حالت کے بارے میں رائے قائم ہو جاتی ہے۔ استاد معاشرے کی مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہنرمند افراد ہی مہیا نہیں کرتا، ساتھ ساتھ انسان سازی پر بھی بھرپور زور صرف کرتا ہے۔ جہاں اساتذہ صرف ہنرمند افراد پیدا کرکے معاشرے کی مادی ضروریات پوری کرنے کے مشن پر کاربند ہوں وہاں سائنسی ترقی نت نئے ایجادات کی شکل میں ضرور سامنے آتی ہے لیکن وہاں عبدیت کے تقاضے پہچاننے والے حقیقی معنوں میں انسان کہانے والے ناپید ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم ممالک بالخصوص مملکت ِ خداداد میں ہنرمند بنانے پر زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی خاطر خواہ کردار سازی پر۔ یہاں معلمی ایک ملازمت بن کر رہ گئی ہے۔ معاشرہ استاد کو اس کا اصل مقام دے رہا ہے اور نہ ہی استاد حقیقی معلمی کے جملہ اوصاف سے خود کو متصف کرپا رہا ہے۔ نتیجتاً زوال ہی زوال ہے۔ تین میں نہ تیرہ میں۔ سائنس کی کرشمہ سازی نظر آ رہی اور نہ ہی کردار کی بلندی۔۔ ایسے میں ان اساتذہ کو دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے جو حقیقی معنوں میں استاد ہوں۔
چار عشروں تک شاگردوں کے دلوں پر راج کرنے والے چارویلو وقار احمد کل ملا کر کم و بیش انتالیس 39 سال تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ آپ اس عرصے میں نہ صرف بطورِ مدرّس اپنی زمہ داریاں نبھاتے رہے بلکہ بطورِ منتظم بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے۔ بطورِ منتظم تعلیمی معیار کی بلندی کے لیے آپ نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔  آپ کے تلامذہ آج انتہائی کلیدی عہدوں پر ملک و قوم کی خدمات میں مصروف ہیں۔ شاہی خطیب محترم مولانا خلیق الزماں کاکاخیل، سینئر سول جج تنویر عثمان، ایکسین مقبول اعظم، سوشل ویلفیئر افیسر چترال خضر حیات خان وغیرہ وغیرہ آپ کے لگائے ہوئے ایسے پودے ہیں جو آج سایہ دار شجر کی مانند برگ و بار لا کر دوسروں کو نفع پہنچا رہے ہیں۔ خود ہمارے سکول میں سبجیکٹ اسپشلسٹ احسان اللہ، سکینڈری سکول ٹیچر خالد ظفر، سائنس ٹیچر محمد وسیم ، سینئر عربی ٹیچر مفتی میر حسام الدین سمیت بڑی تعداد میں اساتذہ آپ کے شاگرد رہے ہیں۔ 

 یہ چارویلو صاحب کی اپنے ننھیال والوں کے ساتھ خصوصی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ کی ملازمت کا بیشتر حصّہ  جی ایچ ایس ایس ایون میں گزرا۔ کچھ عرصے کے بروز اور تھوڑی مدت کے لیے سینٹینئل ضرور گئے لیکن جلد ہی واپس گورنمنٹ ہائی سکول ایون میں تبادلہ کروا کر انسان سازی کے عظیم مشن میں جُت گئے۔ جی ایچ ایس ایس ایون میں بطورِ ہیڈ ماسٹر اور بطورِ انچارج پرنسپل بھی آپ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ سکول کی بہتری کے لیے آپ کی ناقابلِ فراموش خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آپ کے زمانہ ء انتظام میں سکول کی فٹ بال ٹیم نہ صرف مالاکنڈ ڈویژن میں  فاتح رہی بلکہ سکول ِ ہذا کے کھلاڑی بارسلونا کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے۔  ان کے دور ِِاہتمام میں بہترین تعلیمی نتیجہ دینے کی وجہ سے انعام کا مستحق بھی ٹھہرا تھا۔ یہی نہیں بلکہ چارویلو استاذ کا شمار چترال کے ان عظیم ہستیوں میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے چترال کے بچوں بچیوں کو فاصلاتی تعلیم سے جوڑنے اور ملازمتوں کے قابل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ ایس ایس ٹی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر کے طور پر اساتذہ کے حقوق کے لیے بھی آپ کی کاوشیں لائق ِ تعریف رہیں۔
استاذ الاساتذہ سید محمد کا ذکر جب دماغ سے ہوتے ہوئے موبائل کی اسکرین پر چڑھتا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے میرے ماضی کی ایک حسین تصویر گھومتی ہے۔  یہ تب کی تصویر ہے جب ہم انیس سو چھیانوے ، ستانوے میں ہائی سکول ایون میں جماعت ِ ہفتم کے طالب علم تھے۔ استاذ محترم ریاضی ہمیں ایسے دلنشین انداز میں پڑھاتے تھے کہ دوسری کتابیں سمجھدانی میں آتیں نہ آتیں ، ریاضی ضرور  آتی تھی۔ محترم سید محمد استاد کا جلال ہی ایسا تھا کہ بہت سارے سوالات کے جوابات فارمولوں سمیت ان کی جلالی کیفیت کی وجہ سے ہی زہن میں گھس جاتے تھے۔ جس طمطراق سے آپ آج سے بیس پچیس سال پہلے ہمیں پڑھاتے تھے اسی شان وشوکت سے وقت ِ سبکدوشی تک طالب علموں کو پڑھاتے رہے۔ آپ کے انداز ِ تدریس میں رتی برابر ضعف نہیں آیا تھا۔  آپ کی دو خصوصیات قابلِ توجہ بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ ایک یہ کہ آپ پورے زمانہء تدریس میں صرف ریاضی ہی پڑھاتے رہے دوسری یہ کہ آپ کا انتالیس سالہ عرصہ ء ملازمت ہائیر سیکنڈری سکول ایون میں ہی گزرا۔ برسوں ریاضی پڑھانے کی وجہ سے آپ کو "بابائے ریاضی” کے لقب سے بھی ملقب کیا جاتا ہے۔ بابائے ریاضی سید محمد کے تلامذہ بھی کثیر تعداد میں بالخصوص چترال کے طول و عرض میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان دونوں اساتذہ کرام لمبی عمر عطا فرمائے اور ہمیں بھی حقیقی معنوں میں استاد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

Advertisement
Back to top button