اپر چترالتورکھوخبریںصحت

جنتی کھوتیک

 

شمس النبی معاویہ

جنتی کھوتیک

یہ بھی نہیں سمجھ پائیں گے تو کب سمجھیں گے ۔ ہم کب تک ناداں رہیں گے ۔ آؤ سجنوں دانا ہوجاتے ہیں۔
زندگی میں لوگ محبتوں اور اتفاق کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں ۔ مگر اس معیار تک پہنچنے کی کوشش ہر گز نہیں کرتے ہم دانا لوگوں کی باتوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن نادان رہنا ہی گوارہ کرتے ہیں ہم محبت خلوص اور الفت کی باتیں تو کرتے ہیں مگر ہمارے دلوں میں نفرتوں کا وہ زنگ لگا ہوا ہے جو کسی بھی طاقتور کمیکل سے نکلنے والا نہیں ۔
عزیزاں گرامی نم آنکھوں کے ساتھ یہ کہانی لکھ رہا ہوں دعا ہے کہ اس میں کوتاہی نہ کر وں ۔ کیونکہ جہاں کسی کو واقعہ یا کہانی بتانا ہو وہاں یہ ضرور سوچنا پڑتا ہے کہ ایک انسان یا ایک معاشرے کی تعریف کر رہا ہوں اور اس میں اللہ پاک کی نوازی ہوئی حقیقت کتنی ہے اس بات کو لیکر کبھی بھی کوئی بھی لکھنے والا یا کہانی بیان کرنے والا اگر وہ مسلمان ہو ضرور ایک دفعہ سوچتا ہے کہ میں اس وقوعے کے زریعے معاشرے کو سبق دے رہا ہوں جو کہ نیکی ہے مگر ردو بدل کرکے کہیں میں جھوٹ کا مرتکب تو نہیں ہورہا ہوں ۔
ہم گزشتہ کئی سالوں سے کھوت کے باسیوں کی آپس کی محبت کی داستانیں سنتے آرہے ہیں اور اس میں حقیقت بھی ہے کیونکہ سوشل نیٹورک پہ ہماری جتنے بھی کھوت والوں سے شناسائی ہوئی ہے اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ کھوت والے اتفاق اتحاد کے معاملے میں ہم سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔ جس کی کئی مثالیں ہیں اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے ہر بات کا سوشل میڈیا سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ آج سے غالبا 24 سال پہلے کھوت میں ایک شخص کا مکان رات کو دس بجے جل کر خاکستر ہو جاتا ہے ۔ اور دوسرے دن شام تک کھوت والے اس مکان کو بالکل نئے سرے سے تعمیر کرکے گھر کے باسیوں کو دوبارہ اس گھر میں شفٹ کر دیتے ہیں ۔ یقینا ہم سب یہی کرتے مگر شاید ایک مہینے بعد ہم بنا دیتے مگر کھوت والوں نے چوبیس گھنٹے کے اندر اس مکان کی ازسر نو تعمیر کرکے اتفاق کی ایک مثال قائم کی تھی۔ سوشل میڈیا سے پہلے بھی کھوت میں بیماروں کو کھوت کے عوام ہی اپنی مدد آپ کے تحت علاج کرتے آئے ہیں اس کی کئی مثالیں ہیں یہاں تذکرہ کرکے مرحومین کے خاندانوں کی دوبارہ یادیں تازہ نہیں کریں گے ۔

میرے مضمون کا ٹاپک شاید کسی کو فتوی لگے میں آج جس کام کی بات کر رہا ہوں یہ کہانی سن کر آپ سبھی یہی کہیں گے کہ کھوت کا ہر فرد جنت کا حقدار ہے ۔ کھوت رباط سے لیکر پورکھوت تک تقریبا 36 یا 37 سو گھرانوں کی ابادی ہے ۔ جہاں غالبا 45 مساجد اور 32 کے قریب جماعت خانے ہیں جس میں اسماعیلی اور سنی برادری باہمی بھائی چارگی سے محبتوں کا سفر بخوشی کاٹ رہے ہیں اور یہاں جب جماعت خانے کی تعمیر ہوتی ہے تو سنی برادری آگے آجاتی ہے اور تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹاتی ہے اور جب کسی مسجد کی تعمیر ہورہی ہوتی ہے تو اسماعیلی برادری بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور یہ کھوت کی حسن و اخلاق کی اولین مثال ہے ۔
آج سے تقریبا دس دن پہلے کھوت کا سب سے زیادہ مستحق شخص میرگلاب جو پیدائشی معذور ہے کسی موٹر سائیکل کی ٹکر سے اس کی معذور ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے اور اس علاقے کے لوگ انہیں ایک گاڑی میں ڈال کر شاگرام ہسپتال پہنچا دیتے ہیں اور ہسپتال میں معائنے کے بعد ان کو چترال ریفر کیا جاتا ہے ۔ مگر پیسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں شاگرام سے واپس بستر مرگ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے ۔ یہ بات کھوت کے چند جوانوں کو معلوم ہوتا ہے اور راتوں رات اس کے لئے فنڈ ریزنگ کرتے ہیں اور صبح چار بجے تک اس کے لئے کم و بیش ایک لاکھ روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور چترال میں موجود تنظیم کے زمہ داران سے درخواست کرتے ہیں کہ میر گلاب کو فوری طور پر پشاور علاج کے لئے بھیج دیا جائے ۔ اور اسی طرح چترال میں موجود وہ لوگ جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کام میں لگ جاتے ہیں اور دوسرے دن دوبارہ اس مریض کو ایمرجنسی بنیادوں پر شاگرام وہاں سے چترال اور چترال سے 1122 کے زریعے پشاور پہنچا دیا جاتا ہے ۔

اور علاقے میں موجود سیرت کمیٹی ان کے خاندان کی کفالت کر رہی ہوتی ہے اور جس ہسپتال میں آپریشن کے لئے مہنیوں لگ جاتے ہیں اس مریض کو تین دنوں کے اندر اپریشن بھی کروادیا جاتا ہے ۔ اب اصل کہانی یہاں پہ مجھے کم ازکم رونے پہ مجبور کر ر دیتی ہے۔ کہ ہسپتال میں اس کی دیکھ بال کے لئے کھوت کی ایک بیٹی شہزمہ رحیم ہے جو اخلاقی اعتبار سے کامل ہونے کے ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار ہے اپنی ڈیوٹی سے پانج چھ گھنٹے پہلے آتی ہے اور اس کی خدمت کر کے اپنی ڈیوٹی جوائن کرتی ہے ۔ اور ڈیوٹی کے دوران بھی بار ہا آکر ان کو دیکھ کر چلی جاتی ہے۔ وہ کسی بھی لحاظ سے مریض کی کچھ نہیں لگتی مگر اس کو پتہ ہے کہ مریض کھوت سے ہے اور وہ کھوت کی مٹی کی پیداوار ہے جس کا قرض اس کو چکانا ہے ۔ کھوت ہی کے ایک نوجوان معراج الدین جو کہ اباسین یونیورسٹی میں میڈیکل کا ڈپلومہ کر رہے ہیں ایک کال پر میرزہ گلاب کے پاس ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر ان کے داخلے سمیت صحت کارڈ کے معاملات حل کر لیتے ہیں، اس مریض کے سرہانے بیٹھا ہوا شحص خوشی محمد گورنمنٹ کا 17 گریڈ کا آفیسر ہے جو ڈیوٹی سے فارغ ہوکر اس کے پاس بیٹھتا ہے اور کھوت کے جتنے لوگ ان سے رابطے میں ہیں سب سے ویڈیو کال کرکے مریض کا دل بہلاتا ہے وہ کھوت میں پیدا بھی نہیں ہوا مگر باپ کی جائے پیدائش سے محبت کی انتہا ہماری آنکھیں نم کر دیتی ہیں ، دوسرا شخص علی احمد بزمی جو ایم فل کا سٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ پشاور کے ایک سیکنڈری سکول کا سبجیکٹ سپیشلسٹ ہے مگر یہاں پہ آکر چچا میرگلاب کے ساتھ گل مل جاتا ہے ۔ اس کے سرہانے پہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ایک خوبرو نوجوان وسیم سجاد یونیورسٹی میں اپنی پڑھائی کے ساتھ موقع پاکر پھر ہسپتال میں پہنچ جاتا ہے۔ اور اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ ان تمام تر شخصیات کا مریض کے ساتھ کوئی ناطہ رشتہ نہیں ہے بلکہ جو خلوص کا رشتہ ہے وہ یہ کہ یہ سب کھوتیک ہیں اور کھوتیک ہونے پہ فخر محسوس کر رہے ہیں
میر گلاب چچا کی طبیعت ابھی بہتر ہونے کی طرف جارہا ہے دو سے تین دن کے اندر ہسپتال سے ڈسچارج کردیا جائے گا ۔

ہسپتال میں جاکر مجھے ایسا لگا کہ میں نے بھی اس غریب شخص کے پاس جاکر اپنی جنت کنفرم کردیا ہے کیونکہ اس غربت میں پلی ہوئی غریب کی زندگی اور آج ان کی آنکھوں میں جو چمک مجھے جو نظر آئی وہ بیان کے قابل نہیں ۔
اس بابت میں نے کھوت کے دوستوں سے شکریے کے طور پر بات کی تو ان سے پتہ چلا کہ وہ اس اتفاق کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں اور بہت جلد کھوت کے لئیے اور خاص کر ایسے مستحقین کے لئے ایمبولینس خریدنے کی بھی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ سن کر میں تھوڑا جذباتی بھی ہوگیا حلانکہ میں اتنا نرم دل بھی نہیں ہوں مجھے اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا کیونکہ اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں لوگ بچوں کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں وہاں کھوت کی تنظیم اہلیان کے کھوت تیس پینتیس لاکھ روپے کا ایمبولنس لینے کی کوشش کر رہی ہے یقینا یہ بہت بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوگا حلانکہ یہ کام تو مشکل ہے لیکن اہلیان کھوت کے جذبات کو دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ یہ لوگ ایمبولنس کے لئے بھی صرف دس دن میں فنڈ ریزنگ کرکے یہ مثال بھی قائم کرکے چھوڑیں گے
میں اس کہانی میں کسی فرد واحد کا نام لیکر کر ان کے حصے کا ثواب خراب نہیں کرتا لیکن ایک علاقائی تنظیم جس کو کے ایس ڈبلیو او کہتے ہیں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل صد آفرین ہے۔ سلام ہے اس تنظیم کے معماروں کے سوچوں کو ۔
اپنی اس تحریر کے آخری سطر میں کھوت کی مٹی کو سلام پیش کئے بغیر ختم نہیں کر سکتا کہ جس نے ایسے ہیرے پیدا کئے جو صدیوں سے مثال بنتے آرہے ہیں، کھوت کے باسیوں دل کی گہرائیوں سے سلام قبول کیجئے

Advertisement
Back to top button