تعلیمخبریںلوئیر چترال

چترال یونیورسٹی پروگرام، غیرضروری فیس بُکی ہنگامہ اور وضاحت.. ظہور الحق دانش

گزشتہ دو دنوں سے چترال کے کچھ دانشور اور فیس بُکی مجاہدین چترال یونیورسٹی کے ایک میوزک ویڈیو کو لے کر آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے۔ جس کسی نے بھی آؤٹ آف کنٹکسٹ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا میں ڈالا ہے، وہ انتہائی قابلِ مذمت کام ہے۔
دل تو چاہتا تھا کہ اس معاملے پر خاموش رہا جائے، اگنور کیا جائے، اور چترال کے غازیانِ گفتار کو سوشل میڈیا میں گالم گلوچ اور طعنہ زنی کے ذریعے خوب نیکی کمانے کا خاطر خواہ موقع دیا جائے۔ مگر باتیں بہت ہو گئیں۔
اب وضاحت سن لیجیے۔
موسیقی کا جو ویڈیو آپ نے دیکھا ہے وہ یونیورسٹی کے اپنے کسی کیلنڈر پروگرام کا نہیں ہے۔ حکومتِ وقت کی سنجیدہ پالیسی ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر انتہا پسندانہ جذبات اور عناصر کو رام کرنے واسطے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان اقدامات میں سے ایک یہ ہے کہ اداروں کے اندر اساتذہ اور طلباء کو تربیت دینے کے بعد اُن پر مشتمل ایک اَمن کلب بنایا جائے۔ اس کلب کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ ادارے کے اندر مختلف پروگرامات اور ایونٹس منعقد کرا کے طلباء کے اندر ملک و معاشرے کی ثقافتی و مذہبی تنوع کو قبول کرنے اور ایک دوسرے کو مختلف ہونے کے باوجود برداشت کے جذبات پروان چڑھائے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں صوبے کے گورنر، جو جامعات کا چانسلر بھی ہے، نے یہ ذمہ داری ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کو سونپی ہے، کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں جائے اور مذکورہ بالا مقصد کی خاطر فیکلٹی اور طلباء کے ساتھ تربیتی سیشنز لے اور امن کلب قائم کرے۔ چترال یونیورسٹی میں بھی پچھلے دنوں ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی اور نیشنل کاؤنٹر ٹیریرزم اتھارٹی نے مشترکہ طور پر فیکلٹی اور طلبہ کے الگ الگ تربیتی پروگرامات منعقد کرائے تھے۔ ان پروگرامات کا اختتامی سیشن ثقافتی پروگرام پر مشتمل تھا، جس میں دوسرے سگمنٹس کے علاوہ موسیقی کے بھی دو آئٹم شامل تھے۔ اِن سارے پروگرامات کی میزبان ڈائریکٹر ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی محترمہ ڈاکٹر فوزیہ شہزاد صاحبہ تھیں۔
اب حکومت یہ سب کیوں کر رہی ہے، اور گورنر خیبرپختونخوا اداروں میں امن اور برداشت پیدا کرنے واسطے اس طرح کے پروگرامات کیوں کرا رہے ہیں جس میں ثقافتی و موسیقی ایونٹس بھی ہوں، یہ بات چترال کے فیس بکی مجاہدین حکومت سے پوچھیں اور خاص کر جناب گورنر خیبرپختونخوا سے جواب طلب کریں۔

یاد رہے یونیورسٹی ایک خودمختار ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی و تربیتی شہر بھی ہوتا ہے۔ ایک یونیورسٹی میں علم و تعلّم اور تحقیق کے علاوہ دین و دنیا کے جملہ امور سے متعلق طلبہ کی تربیت کی جاتی ہے، ان کو مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں اور سکِلز کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن اتھارٹی کی ڈائریکٹر، اساتذہ، انتظامی افسران، سٹوڈنٹ پراکٹرز اور سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں موسیقی کا ایک آئٹم پرفارم ہوا ہے، تو کونسی قیامت آ گئی ہے؟ کنٹرولڈ انوائرنمنٹ میں اخلاق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی ایک طرح کی تربیت ہے یہ بھی۔
بغیر تحقیق اور معلومات کے کسی بھی چیز پر بات کرنا، اداروں اور شخصیات کو میلائن کرنا، ان کے خلاف غلط ڈھنڈورے پیٹنا گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ یاد رہے ایسے شدت پسند اور انتہا پسند افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق ریاست کے قوانین کے مطابق محفوظ ہے۔

Advertisement
Back to top button