تاریخ اور ادبثقافتکالم نگار

جناب شاعری کیجیے! نفرت مت پھلائیے شاعری کریں لیکن بھٹوارہ مت کیجیے

نور الھدی یفتالی

معاشرے میں تین طبقے کے لوگ محبت اور آمن کے داعی ہوتے ہیں،شاعر،کھلاڑی،ڈاکٹر
یہ طبقہ نفرت کو محبت میں بدلنے کا ہنر خوب جانتے ہیں،یہ اس سماج میں نفرت کو بھی محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،اور محبت کوگلے لگا لیتے ہیں،یہ طبقہ انسانیت کی ہونٹوں پرمسکراہٹین بکھیرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔اس طبقے کی سوچ بھی اجتماعی ہوتی ہے،اس طبقے سے معاشرےمیں ہرمکتب فکر متاثر ہوتے ہیں، یہ طبقہ مشترکہ ہوتا ہے ،ان کی کوئی سرحد کوئی لکیر، کوئی،تقسیم ناممکن ہے۔
شاعر اپنے شاعری سے نفرت کو محبت میں بدل دیتا ہے،انکی شاعری سب لیے ہوتاہے۔ڈاکٹر کو اس سماج میں مسیحا سمجھا جاتا ہے۔ایک مریض کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد آخری امید ایک معالج ہی ہے۔ایک کھلاڑی اپنے ہنر سے اپنے لئے داد وصول کر لیتا ہے،وہ چاہے جس نسل جس رنگ جس طبقے کا بھی کیوں نہ ہو وہ سب کے واسطے ایک ہی ہے۔لیکن ان سب کو تقسیم کر نے والا ہم جیسے لوگ ہیں،کسی قوم کی شناخت اُس کی ثقافت سے کی جاتی ہے۔ قوم کے افراد جب مل جل کر ایک جگہ پر رہتے ہیں تو اُن کے رسم رواج، رہن سہن، بول چال یہاں تک کہ کھیل، خاندانی قوانین بھی قدرے مشترک ہو جاتے ہیں۔

جناب من شاعری کیجیے لیکن خدارا نفرت مت پھلایئے!

انسان فطری طور پر محبت پسند ہے اور دنیا میں محبت کا پیغام پھیلانے آیا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہر طرف نفرت کی وہ آگ بھڑک رہی ہے جس نے پوری سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انسان فطری طور پر ، امن پسند، محبت کرنے اور محبت چاہنے والا ہے جبکہ یہی انسانی جذبہ نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے ۔ کسی بھی انسان کی سوچ پیداشی نفرت کی طرف مائل نہیں اور نہ ہی یہ منفی رجحان جذبہ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ ہے بلکہ یہ جذبہ یا منفی رجحان دیگر ناگوار و ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہونے والا منفی رجحان ہے۔اس معاشرے میں حضرت انسان پر یو ں تو کئی سماجی ذمہ داریاں عائد کر دی گئی ہیں۔جو اپنے زندگی میں ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں،اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی سماجی خدمات ان کی عظیم ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ قوم اور قوم پرستی جیسے تصورات کی حیثیت بالائے تاریخ یا ماورائے سماج نہیں ہے کہ جو ازل سے موجود تھے اور ابد تک موجود رہیں گے۔لیکن قوم پرستی کوبنیاد بنا کر طعنے بازی معاشرے کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لےسکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں خود احتسابی دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان اپنی فطرت کیمطابق خود کو خامیوں سے پاک سمجھتے ہوئے تمام غلطیوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔کررہےہیںیہ دین ہمیں انسانوں کے ساتھ پیار و محبت کا درس دیتا ہے، مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔

ہم ایک ہیں،ایک تھے اور ایک ہی قوم رہینگے۔
ہمار ی چھترار ہماری پہچان​

Advertisement
Back to top button