سماجیکالم نگار

المیہ

اشتیاق احمد

 

زندہ قومیں ہمیشہ اپنے محسنوں کو یاد کرتے ہیں اور ان محسنوں کو اپنی زندگی میں ایسا مقام دلواتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے پھران کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کا کردار اور ان کی خدمات تا ابد دلوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شخصیت حالیہ کچھ دنوں میں اس دار فانی سے رخصت ہونے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔( اس کے علاوہ ان گنت مثالیں اس ملک کے اندرموجود ہیں ایسے افراد جنھوں نے اپنی زندگی تک اس ملک و قوم کے لئے وقف کی تھیں خواہ وہ سیاست دان، جنرلز ،ججز بیروکریٹس،اساتذہ کرام،ایسے گمنام سپاہی جو بظاہر تو نظر نہیں آتے لیکن کسی بھی ملک کی بقااور سالمیت کے ضامن ہوتے ہیں اس کے علاوہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد) ان کو وہ مقام ومرتبہ ہم بحیثیت قوم دے نہیں پاتے ہیں کہ جن کے وہ اصل حقدار ہوتے ہیں۔اس کی دنیا میں کئی ایک مثالیں ہیں کہ انھوں نے اہنے محسنوں کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا ،ان کو ملک کے ایوانوں تک لے آئے اور کچھ ممالک میں تو ان کو بحیثیت سربراہ مملکت تک کی اہم ذمہ داریاں سونپ دیں پھرانھوں نے ملک و قوم کی سربراہی کا حق ادا کر دیا اور آج دنیا ان کی مثالیں دینے پر مصر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے مملکت خداداد کی سالمیت کو نا قابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا،پاکستان کودنیا کے خطے پر پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنانے اوردنیا کی ساتوںں ایٹمی قوت بنا کے اور بھی اہمیت کے حامل بنا دیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان کو اپنے سر کا تاج کہ کے ان کو وہ مقام و مرتبہ عطا کرتے کہ جس کا وہ واقعی حقدار تھے کیا بحیثیت قوم ہم نے ان کو وہ مقام دیا؟

ڈاکٹر صاحب نے 2012 میں جذبہ حب الوطنی کے پیش نظر ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان کو اس منصب پہ براجمان کرتے اور زمام کار بھی ان کے حوالے کرتے تاکہ وہ اس ملک کو اس رخ پہ چلاتے اور پاکستان کے وجود کو اوع بھی نا قابل تسخیر بناکے دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں شامل کرتے اپنی دیانت داری اور راست گوئی اور منا سب پلاننگ کے تحت لیکن ہم نے اس کے برعکس ایسا کردار ادا کیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں ہی دل برداشتہ ہو گئے اور اپنی نوزائیدہ پارٹی کو چند ماہ بعد ہی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کہیں پہ بھی پاکستان کے کسی علاقے میں بھی ان کو پذیرائی نہیں ملی اور کچھ علاقوں میں تو ان کی پارٹی ٹکٹ لینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔

 ڈاکٹر صاحب نے تحریک تحفظ پاکستان کے نام سے جس پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وہ اس نظرئے کی بنیاد پہ تھی کہ اس مملکت خداداد کی سالمیت پہ آنچ نہ آئے اور اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے لیکن ہم نے پورے پاکستان سے ان کو ایک سیٹ بھی نہیں دلوائی اور ان کے لوگوں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں یہی کچھ حال ہم نے عبدالستار ایدھی کی پارٹی کے ساتھ بھی کیا تھا (حالانکہ وہ بھی درد دل رکھنے والے سچے پاکستانی تھے،ان کی خدمات بھی کسی سے ڈکھی چھپی نہیں ہیں ) ان کے لوگوں کی بھی ضمانتیں ضبط ہو گئیں تھیں اور یہی حال ہر جگہ اور ہر علاقے میں درد دل اور ملک و قوم کی خدمت سے سرشار لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔

من حیث القوم ہمیں اس جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو پہچانیں اور ان کو دنیا میں وہ مقام و مرتبہ عطا کریں کہ جن کے وہ واقعی حقدار ہوتے ہیں،زمام کار ایسے افراد کے ہاتھ میں تھما دیا جائے تو اس ملک کو دنیا کے دیگر معاشی اور ہر حوالے سے مضبوط طاقتور ممالک کی صفوں میں لا کھڑا کر سکیں پھر اس کی دیکھا دیکھی قوم کے مستقبل کے معماران کے جذبات کو اور مہمیز ملے اور وہ دل لگا کے اس ملک کو آگے لے جانے میں مدد کر سکیں اس کے لئے وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے دن دگنی رات چگنی محنت کر سکیں کہ یہ قوم اپنے محسنوں کی کاوشوں کو کبھی نہیں بلاتی اور کو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابیوں کے زینے چڑھا دیتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو خاکم بداہن نوجوان بد دلی اور مایوسی کا شکار ہو جائیں اور یہ نہ کہیں کہ یہ قوم تو اپنے محسنوں کے ساتھ کوئی اچھا برتائو نہیں کرتے اور اگر ہم بھی ایسی خدمت کریں ملک و قوم کی تو ہمارے ساتھ بھی ویسے ہی سلوک ، رویہ برتاءو رکھا جائے گا تو یہ قوم کے معماران فرسٹیشن کا شکار ہونگے اور ایسا نہ ہو کہ ملک و قوم کی مفاد میں سوچنے اور پلاننگ کرنے کے بجائے ہم اپنے من کے پجاری بنتے جائیں ۔

Advertisement
Back to top button