تورکہو کھوت سے تعلق رکھنے والے شیر افضل پشاور میں زیر علاج تھے جن کو کسی نے نشہ اور چیز پلا کر سڑک کنارے پھینک دیا تھا جس کی وجہ سے ان کا اندرونی نظام متاثر ہو چکا تھا
شیر افضل چلے گئے لیکن ان کے قاتل زندہ ہیں اور مزید کتنے شیر افضلوں کو شکار کرنے کی تیاری کر چکے ہیں
میں نہیں جانتا یہ درندے کون ہیں جو ہر سال کئی چترالیوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ایک بات اٹل ہے کہ یہ ایک ہی گروہ کے درندے ہیں جو موقع پا کر نہ صرف مال بلکہ جان بھی چھین لیتے ہیں
شیر افضل کی موت اگر ہمیں جگانے میں کامیاب ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو سمجھو کہ ہم مرغیوں کی طرح کٹنے کو تیار ہیں ۔
پشاور میں مقیم چترالی معززین کو اس معاملے میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے یہ گروہ کوئی اور نہیں بلکہ چترالیوں کا گروہ ہے جن کا نشانہ چترالی عوام بنتے رہے ہیں ۔
اس گروہ کے کارندے بس اسٹاپ ہوٹلوں بس اڈوں اور بازاروں میں سرگرم رہتے ہیں جو لوگوں کو اپنی جال میں پھسا کر نہ صرف لوٹتے ہیں بلکہ جان بھی لے لیتے ہیں ہمارے عوامی نمائندوں کو چاہئیے کہ پشاور میں مقیم چترالیوں کو ساتھ لیکر اس گروہ کو پکڑنے اور انہیں انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے ۔
ایس پی ظفر احمد خان جو کہ شیر افضل کے معاملے میں بھی دن رات وہاں حاضر رہے ہیں ان سے ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اس گینگ تک پہنچ سکتے ہیں ۔