سماجیکالم نگار

وعدے جو وفا نہ ہو سکے۔

نوید الرحمٰن

 

سال 2020 میں آنے والی تباہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ریشن میں کئی ایکڑ زرعی زمینات اور جنگلات دریا برد ہوگئے۔ جن کو سروے کے لئے تو بہت سے لوگ آئے اور نام لکھ کر دلاسہ دیتے ہوئے چلے گئے۔
اس تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ریشن شادیر کے مقام پر چترال ٹو شندور مین روڈ جو اپر چترال کو لوئر چترال سے اور ملک کے دیگر شہروں سے ملانے والا واحد راستہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شادیر کے رہائشیوں کے گھر، مہمان خانے، مویشی خانے، زمینات اور جنگلات ریڈ زون بن گیے۔
اہلیان ریشن کئی بار ضلع انتظامیہ اور عوام منتخب نمائندوں ایم پی اے ہدایت الرحمن صاحب اور ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب کو کئی بار اس سنگین مسئلے کے بارے میں آگاہ کرتے رہے مگر انتظامیہ اور ہمارے منتخب نمائندوں کے کانوں میں جوں تک نہ رینگا۔ آئے روز اہلیان ریشن سوشل میڈیا پر اس مسئلہ کو اٹھاتے رہے تصویریں اور ویڈیوز بھی شئیر کرتے رہے۔ آخر کار وزیر زادہ صاحب نے دریا کا رخ موڑنے کے لیے فنڈز جاری کیے۔
جناب وزیر زدہ صاحب کی دی ہوئی فنڈز سے ٹھیکیدار نے دریا کا رخ موڑنے کیلئے ایک دوسرا چینل کھودا اور دریا کا رخ موڑ دیا۔ مگر دریا یار خون کے بے لگام موجوں کے سامنے ریت کی یہ دیوار کب تک ٹھہر پاتی۔ جون کے مہینے میں جب دریا میں طغیانی آئی اور دریا کا بہاؤ تیز ہوا تو یہ ریت کی دیوار دریا کی آوارہ موجوں میں بہہ گئی اور دریا کا رخ ایک بار پھر آبادیوں کی طرف موڑ گائی۔ اور اپر چترال کو دوسرے شہروں سے ملانے والی واحد روڈ بہا کر لے گئی۔ اور اس کے ساتھ لوگوں کے زرخیز زمینات، مکانات، مویشی خانے اور جنگلات بھی بہا کر لے گئی۔
ریشن شادر میں پانچ گھرانے مکمل طور پر تباہ ہوگئی جن کی مالیت کوروڑون میں تھی دریا برد ہوگئی۔
ہمارے منتخب نمائندے اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ متاثرہ خاندانوں سے وعدے تو بہت کیے تھے مگر مگر حقیقت میں آج تک متاثرین کے لیے کوئی عملی کام نہیں کیا گیا اور نہ ان کو مالی سپورٹ ملا۔
لہذا حکام بالا سے درخواست ہے کے متاثرہ خاندانوں کو جلد از جلد امداد دیا جائے اور ان کے مطالبات سنے جائے اور اس پر فوری طور پر عمل بھی کیا جائے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button