اپر چترالخبریںسماجیسیاست

تحریک حقوقِ عوام اپر چترال کی کال پر بونی میں آل پارٹیز اجلاس

بونی (ذاکر زخمی)   اپر چترال کو ضلع کادرجہ ملنے کے بعد لوئیر اور اپر ضلع کے درمیان کچھ مسلے زیرِلب یا سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اکثریتی رائے کو اگر فوقیت دیکر اس کی طرف توجہ دی جائے تو اکثر لوگوں کا خیال ہے۔ کہ اپر چترال کو ضلع بننا انتظامی تقسیم ضرور ہے لیکن رشتوں،رابطوں کی دوری ہر گزنہیں انتظامی طور پر ضرور تقسیم کیا گیا لیکن ہمارے روایات، ثقافت،اقدار باہمی رشتے مشترک تھے مشترک ہیں اور مشترک رہینگے۔اس میں خلل ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ہم فطری طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔دوسری طرف لوئیر چترال میں کچھ سیاسی نمائیندے اور کچھ ملازمین کے نمائیندے ایک مسلے کو لیکر عرصے سے سوشل میڈیا کے سہارے اور عملی طور پر لوئیر اور اپر چترال کے درمیان فاصلہ بڑھانے اور دوریاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اپر چترال علحیدہ ضلع بننے کے بعد ضلعی کیڈر کے ملازمین کو ان کے ضلع میں تعینات ہونا ہے۔ اپر چترال ضلع بننے کے بعد مزید لوئیر چترال پر بوجھ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔وہ اپنے مطالبے پر حق بجانب ہیں یا نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے۔ ہونا بھی یہ چاہیے کہ علاقے کے قابل اور اہل ملازمین اپر چترال اکر اس کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں۔لیکن حکومت کی اپنی پالیسی اور قانون ہوتا ہے۔

bifurcation کے بھی طریقہِ کار ہوتے ہیں۔ ملازمین ضلع، ڈویژن اور صوبہ کے ماتحت ہوتے ہیں۔ان کا اپنا طریقہ کا ہوتا ہے۔یقینا اپنے طریقہ کار اور حکومت کی واضع کردہ اصولوں کے پیش نظر پوسٹینگ اور ٹرانسفر کرتے ہیں۔ اس سلسلے کو اگے بڑھاتے ہوئے حال ہی میں چترال کے سیاسی راہنما اور ملازمین کے نمائیندگی کے دعویٰ دار ملازمین چترال میں جے۔ یو۔ائی کے سربراہ اور سابق ایم پی اے مولانا عبد الررحمن کی صدارت میں ایک احتجاجی اجلاس منعقد کی اور اس اجلاس کے ذریعے انتظامیہ،حکومت اور اپر چترال کے ان ملازمین کو شدید الفاظ میں متنبہ کرکے ڈیڈ لائن دی کہ ااگر ان کے مطالبات منظور نہ کی گئی تو شدید ردِ عمل کی زمہ داری انتظامیہ اور حکومتِ وقت پر عائد ہوگی۔

خصوصاً ملازمین کے نمائیندے اپنے ویڈیو انٹرویو کے تواسط سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ لوئیر چترال کی اس احتجاج کے ردِ عمل میں آج اپر چترال کے ہیڈ کوارٹر بونی میں تحریکِ حقوق عوام اپر چترال کی کال پر آل پارٹیز اجلاس منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت سابق یو سی ناظم اور پاکستان پیپلز پارٹی اپر چترال کے صدر امیر اللہ نے کی جبکہ مہمان ِ خصوصی کے طور جمیعت علما اسلام اپر چترال کے امیر مولانا فتح الباری تھے۔

ان کے علاوہ تمام پارٹیز کے نمائندہ گان اور سول سوسائٹی کے معتبرات نے اجلاس میں شرکت کی۔ تحریکِ حقوقِ عوام کے سرگرم رکن اور نوجوان قیادت پرویز لال نظامت کی تلاوت کلام پاک سے اجلاس کا آغاز کیا گیا۔ آل پارٹیز اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے پرنس سلطان الملک،پیپلز پارٹی اپر چترال صدر امیر اللہ،پیپلز پارٹی کے جنرل سکرٹری حمید جلال،جماعت اسلامی اپر چترل کے امیر مولانا جاوید حسین،اے۔این۔پی کے فضل الرحمن،پاکستان تحریکِ انصاف کے بابر علی،تحریکِ حقوق اپر چترال کے مختار احمد،جمیعت علما اسلام کے مولانا فتح الباری، سول سوسائٹی کے شیخ عبد اللہ، سلطان نگاہ، میر ایوب،رحمت سلام، سردار،سابق تحصیل ناطم شمس الرحمن اور عبد اللہ جان وغیرہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا۔

کہ لوئیر اور اپر چترال کے پُر امن فضا کو خراب کرنے کے لیے چند مفاد پرست عناصر لوئیر اور اپر کا شوشہ چھوڑ کر سستی شہرت حاصل کرنے میں مصروف ہیں جو کسی بھی طرح کے سنجیدہ عمل نہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ لوئیر چترال خاص کے محترم لوگ نہ پہلے اسی طرح کے تعصبات کو ہوا دی ہیں نہ اب دے رہے ہیں نہ دینے کی تواقع ہے۔مذکورہ میٹنگ میں چند وہ لوگ نمایان ہیں جن کا حقیقتاً نہ لوئیر چترال سے تعلق ہے نہ دلی وابستگی۔ یہ محض خود کو لوئیر چترال کی بناوٹی ہمدرد ظاہر کرنے کے عرض اس طرح کے ڈرامہ رچا کر لوئیر چترال کے عوام کو فریب دے رہے ہیں کہ وہ ان کے نمائیندگی کر رہے ہیں۔حالانکہ ان کی دلی وابستگی اب بھی ان کے ابائی علاقوں کے ساتھ ہے۔

مذکورہ اجلاس میں شریک اکثر حضرات اپر چترال سے ہجرت کرکے لوئیر چترال میں آباد ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپر اور لوئیر کے درمیان فاصلہ پیدا کرے۔ اجلاس میں لوئیر چترال خاص کے عوام کا شکریہ ادا کیا گیا۔ کہ انہوں نے ہمیشہ سرپرستی کا حق بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہوئے کبھی بھی ہمیں یہ احساس ہونے نہ دیا کہ ہم اپر سے لوئیر ائیے ہوئے ہیں یہ ان کی عظمت اور بڑھائی ہے چترال خاص کے عوام کی شاندار کردار پر انہیں خراجِ تحسین پیش کی گئی۔

اجلاس میں جو جو سرکاری ملازم سیاسی اجلاس میں شریک ہوکر نفرتیں پھیلانے، دھونس دھمکی اور شدید ردِ عمل کے دھمکی دینے پر حکومت خیبر پختونخوا اور ضلعی انتظامیہ لوئیر چترال سے مطالبہ کیا گیا کہ ہر ملازم کے لیے ایک نظم و ضبط واضع ہے اور مووجودہ حکومت کی یہ عیان پالیسی ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم کسی بھی سیاسی پلیٹ فارم کو استعمال نہیں کر سکتا لہذا حکومت اور انتظامیہ لوئیر ان ملازمین کے خلاف کاروائی عمل میں لائیے جو اس طرح کے سیاسی اجلاس میں شرکت کرکے برملا میڈیا کے سامنے (ان کے مطالبات تسلیم نہ کرنے کے صورت میں) شدید ردِعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

اجلاس کے اخر میں فیصلہ کیا گیا کہ عنقریب bifurcationکے عمل میں کمی خامیوں کو دور کرانے اور دوسرے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک اور آل پارٹیز اجلاس اور پریس کانفرنس منعقد کی جائیگی۔ جس میں اپر چترال کو ددرپیش تمام مسائل سے حکومتِ وقت کو اگاہ کیا جائیگا۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button