سماجیصحتکالم نگار

آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے قیام کی کہانی ؛ شعیب سلطان کی زبانی

نثار احمد شاہ

 

یہ 4 اپریل 1984 کی روشن صبح ہے۔ لواری ٹاپ پر برف پڑی ہے۔ آمدورفت کے زرائع بند ہیں۔ آج شعیب سلطان چند سرکاری مہمانوں کے ساتھ بذریعہ ہیلی کاپٹر سیدو شریف سے چترال پہنچے ہیں۔ چترال میں اے کے آر ایس پی کے قیام کے بارے میں میٹنگ جاری ہے۔ شرکاء میں سے کچھ نام اس مطابق ہیں۔

-شمشیر علی خان، کمشنر ملاکنڈ ڈویژن؛

-تاج محمد، ڈی سی چترال؛

-خورشید علی خان، چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل۔

-عبدالرؤف یوسف زئی, ایس پی چترال؛

-لیفٹیننٹ کرنل نیئر مراد, کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس؛

-خالد منصور, اسسٹنٹ ڈائریکٹر، لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ؛

-پنین شاہ, اسسٹنٹ ڈائریکٹر، محکمہ زراعت؛

-جہانزیب، ایگزیکٹو انجینئر ،سی این ڈبلیو؛

-اے کے آر ایس پی کی طرف سے حسین ولی خان اور شعیب سلطان خان۔

کمشنر صاحب نے اے کے آر ایس پی اور شعیب سلطان خان کا مختصر تعارف کرایا۔ اس کے بعد شعیب سلطان نے ادارے کے قیام اور اغراض و مقاصد کے حوالے سے شرکاء کو بریفنگ دی۔ اس نے بتایا کہ ادارہ کسی خاص کمیونٹی کے بجائے پورے علاقے کی ترقی کےلیے کام کرنے کا خواہاں ہے- دیہی ترقی کے حوالے سے تین جہتوں پر کام کریں گے۔

الف۔ فزیکل انفراسٹرچکر کی بہتری۔ مثلاً لنک روڈ، نہریں، سیلاب سے بچاو کی تدابیر

ب۔ انتظامی انفراسٹرچکر کا قیام۔ ان پٹ اور کریڈٹ کی فراہمی۔

ج۔ سوشل اور اکنامک انفراسٹرچکر۔ مثلا دیہی تنظیمات کے قیام سے مقامی لوگوں کے مسائل کی نشاندہی اور ان کا سد باب وغیرہ۔

اس موقع پر چیئرمین خورشید علی خان نے اجلاس کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں سیشن جاری ہے۔ اس نے توقع ظاہر کی کہ شعیب صاحب اور ان کی ٹیم ضلع کونسل ویزٹ کرین گے۔ موسم کی خرابی اور وقت کی کمی سے ایسا ممکن نہ تھا۔ کمشنر ملاکنڈ نے انہیں یقین دلایا کہ یہ ابتدائی دورہ ہے۔ شعیب سلطان مزید دورہ کرین گے۔ اور کونسلرز سے ملاقات کریں گے۔ اس بات پر خورشید علی خان مطمعن نظر آئے۔

اس سے پہلے مارچ 1984 میں نرسری کے پودے اور کانسیپٹ بُکس لیکر گرم چشمہ جاتے ہوئے، پھنڈر کے قریب ہیلی کاپٹر کریش کرگیا تھا۔ تاہم کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ ہزہائنس پرنس آغا خان نے 1987 میں گرم چشمہ اور کریم آباد میں دیہی تنظیمات کے ممبران سے خطاب کیا۔ ہزہائنس اےکے آر ایس کے تنظیمی دوروں (ملاقات) کے موقع پر اہلِ سنت کے علاقے میں عموماً روسٹرم (ڈائس) میں جاکر بات کرتے، جبکہ اسماعیلی ایریاز میں اس جہگہ بیٹھ کر ہی بات کرتا جہاں بیٹھا ہو۔

شعیب سلطان خان 1933 میں اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا۔ پشاور یونیورسٹی سے بیچلر آف لا کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصہ جہانزیب کالج سوات میں پڑھایا۔ 1955 میں سی ایس ایس کرلیا۔ پھر پبلک ایڈمنسٹریشن کورس کرنے کیمبرج چلا گیا۔ واپسی پر مشرقی پاکستان میں میجسٹریٹ تعینات ہوئے۔ دورانِ ملازمت ڈی سی کوہاٹ، ڈی سی پشاور؛ سول سروس اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ، کمشنر کراچی ، محکمہ صحت ، تعلیم اور سماجی بہبود کے محکموں میں سرحد حکومت کے سیکریٹری؛ اور پاکستان اکیڈمی برائے دیہی ترقی کے ڈائریکٹر کے عہدوں پر فائض رہے۔ 

1959 میں کومیلہ (مشرقی پاکستان) میں ان کی اختر حمید خان سے ملاقات ہوئی۔ اختر حمید خان سادہ زندگی اور بلند خیالات (سمپل لیونگ ہائی تھینکنگ) کا عملی نمونہ تھا۔ انڈین سول سروس سے یہ کہہ کر قبل از وقت رخصت لی کہ آئی سی ایس میں بہت کچھ سیکھا۔ اب سیکھنے کو نیا کچھ نہیں۔ شعیب سلطان کا اخترحمید خان سے وہی تعلق تھا، جو بوسویل کا ڈاکٹر جانسن سے۔ شعیب اُسے اپنا منٹور اور استاد مانتے ہیں۔

سن ستر کی دہائی میں انٹیگریٹڈ رورل ڈویلپمنٹ پروگرام (پشاور)، داودزئی پائلٹ پروجیکٹ پشاور، اور پاکستان اکیڈیمی فار رورل ڈویلپمنٹ، پشاور کا بڑا چرچا تھا۔ اختر حمید خان بطور وائس چئیرمین اور ایڈوائزر، جبکہ شعیب سلطان خان بطور ڈائریکٹر ان اداروں (اور پروجیکٹ) کے ساتھ وابستہ رہے۔ اگست 1975 میں شعیب سلطان کو او ایس ڈی بنایا گیا۔ تو اختر حمید خان نے استعفی دے کر امریکہ چلا گیا۔ شعیب سلطان 1978 میں اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ میں کنسلٹنسی جاب پر جاپان چلا گیا۔ اس کے بعد مہاویلی گنگا پروجیکٹ، سریلنکا میں یونیسف کے مشیر لگ گئے۔ تب تک اختر حمید خان امریکہ سے واپس آکر، آغا حسن عابدی کی درخواست پر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پر کام کا آغاز کرچکا تھا۔ آغا خان فاونڈیشن کے اُس وقت کے ڈائریکٹر سپیشیل پروگرامز، روبرٹ ڈی آرسی شا نے آختر حمید خان سے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام چلانے کےلیے کسی موزوں شخص کی نشاندہی کرنے کی درخواست کی۔ اختر حمید خان نے شعیب سلطان کا نام لیا۔

شعیب سلطان خان کی پرنس کریم آغا خان سے پہلی ملاقات 1964 میں بطورِ ڈی سی کوہاٹ، کمشنر پشاور مسرور حسن خان کے گھر ظہرانے پر ہوئی تھی۔ دورانِ گفتگو بیگم شعیب سلطان نے بتائی کہ وہ اور شعیب دو بار لندن سے پاکستان زمینی سفر کرچکے ہیں۔ اور یہ کہ سوئٹزرلینڈ اسے پسند ہے۔ ہزہائنس نے کہا، آپ کو پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کرنا چاہیے۔ دوسری بار 1972 میں بطور کمشنر کراچی، ائیرپورٹ میں ہزہائنس کو ریسیو کیا تھا۔ ہزہائنس، آغا خان یونیورسٹی کی تعمیر کو حتمی شکل دینے آئے تھے۔ ہزہائنس نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کی منصوبہ بندی میں 12 سال لگے ہیں۔

یکم دسمبر 1982 کو شعیب سلطان نے یونیسف سے رخصت لیکر بطورِ جی ایم، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام جوائن کی۔ اس وقت رمضان مرچنٹ آغا خان فاونڈیشن کے چئیرمین اور حاکم فیراستا سی ای او تھے۔ 

کمیونٹی کے ساتھ اے کے آر ایس پی کی پہلی میٹنگ (ڈائیلاگ) 15 دسمبر 1982 کو پونیال ویلی کے جاپوکا گاوں میں منعقد ہوئی۔ گاوں کے پنتیس لوگ جمع ہوئے۔ انہوں نے اپنے مسائل کی نشاندہی کی- پینے کے صاف پانی کی ترسیل؛ پھلدار اور جنگلاتی پودوں کےلیے نرسری کا قیام؛ لنک روڈ کا قیام؛ پھلوں کی حفاظت اور پروسسنگ؛ کھاد، بیج، کرم کش ادویات کی فراہمی؛ ٹریکٹر اور تھریشر کی فراہمی وغیرہ۔ اس کے بعد جی ایم نے ادارے کے قیام کے بنیادی مقصد (غربت مٹاو) پر روشنی ڈالی۔ اور اے کے آر ایس پی کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کی۔

شروع میں اے کے ار ایس پی کے منیجمنٹ گروپ میں دو مقامی اسٹاف (طوالت شاہ اور یار محمد) اور چار غیر مقامی (شعیب سلطان، طارق حسین، فیروز شاہ، ایم ایچ نقوی) شامل تھے۔ کوئی خاتوں اسٹاف نہیں تھی۔ بعد میں ملیحہ حسین، جس نے ضیاء کے ایک کالے قانوں کی زد میں اکر فارن سروس سے احتجاجاً مستعفی ہوئی تھی، بطورِ ہیڈ ویمن ڈیویلپمنٹ اے کے آر ایس پی جوائن کرلی۔ وقت کے ساتھ کئی پروفشنلز (جن میں زیادہ تر مقامی تھے) نے ادارہ جوائیں کرلیں۔ حسین ولی، مطابیت شاہ، ظہور عالم، ڈاکٹر ریاض، خلیل ٹیٹلے، امینہ اعظم علی، شندانہ خان، شاہدہ جعفری، ماجد، جاوید، اظہار ہنزائی، ڈاکٹر فرمان علی وغیرہ۔ دوسرے سماجی منتظمیں اور ڈویلپمنٹ پروفشنلز میں مطاہر شاہ، شہزادہ مسعود الملک، اکرام اللہ جان، نور محمد، اقبال ، شاہ کاریز، معراج خان، دارجات، سردار ایوب اور غازی؛ جبکہ شعیب کے پرسنل سٹاف میں رؤف، شاہ مکین اور نعیم قابل زکر ہیں۔ ڈرائیورز شیرعلی، میر احمد، جلیل، ابراہیم اور نائب خان شامل ہیں۔ 1994 میں جب شعیب سلطان اےکے آر ایس پی سے رخصت ہوا، اس وقت 400 میں سے 95 فیصد مقامی اسٹاف تھے۔ جن میں سے کئی نے امریکہ، کینڈا اور ناروے سے ڈگری حاصل کی تھیں۔

ایک دفعہ شعیب سلطان گوپس سے پھنڈر جارہا تھا۔ راستے میں ایک لوکل ڈی ایس پی ان کی گاڑی میں لفٹ لی۔ آگے راستے میں ایک گاڑی ایکسیڈنٹ ہوکر دریا میں گری تھی۔ ڈی ایس پی نے نہایت بہادری سے کئی لوگوں کی جانیں بچائیں۔ بعد میں شعیب سلطان کے ریکامنڈیشن پر صدر پاکستان نے اسے تمغہ شجاعت سے نوازا۔ ڈی ایس پی کا نام نظرب اور تعلق شمشال سے تھا۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ پہلے نظرب گلگت میں اے کے آر ایس پی کے دفتر تشریف لائے۔ آنے کی وجہ یہ بتایا کہ خواب میں اپنے حاضر امام کو دیکھا تھا۔ میرے امام نے مجھے شعیب سلطان سے ملنے کا کہا تھا۔ اس لیے حاضر ہوا ہوں۔

حسیں ولی نے 1984 مین گُلمت میں ایک منی ہائیڈل پاور پلانٹ لگایا، جس سے راجہ بہادر خان کے ہوٹل کو روشن کیا گیا۔ پھر گلگت کے دوسرے علاقوں میں منی پلانٹ لگایا گیا۔ مگر جس شخص نے منی ہائیڈل پروجیکٹ کو ترقی دی، وہ شہزادہ مسعودالملک ہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق سن 2000 میں دنیا کے کسی بھی علاقے کے مقابلے میں ضلع چترال میں مائکرو ہائڈلز کا ارتکاز سب سے ذیادہ تھا۔ 2005 میں چترال کے علاقہ گرم چشمہ (ایژ) میں واقع بجلی گھر کو ایشیڈن ایوارڈ ملا، پھر گلوبل ڈیولپمنٹ نیٹ ورک ایوارڈ فار موسٹ اینوویٹیو پروجیکٹ کےلیے 2006 میں ایوارڈ ملا۔ یعنی جس کام کا آغاز انجنئیر حسین ولی نے گلمت سے کیا تھا، اسے چترال کے مسعود الملک نے بامِ عروج تک پہنچایا۔ 

1982 میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کےقیام کے دو مقاصد تھے؛

1۔ شمالی علاقہ جات اور چترال کے غریب عوام کی امدنی بڑھانا اور غربت مٹانا۔

2۔ اے کے آر ایس پی کو دیہی ترقیاتی کاموں کےلیے ایک قابل عمل (ریپلک ابیل) ماڈل کے طور تیار کرنا۔

1987 میں پہلی بار ورلڈ بینک نے اے کے آر ایس پی کے کام کا معائنہ کیا۔ اس کو بھرپور انداز میں سراہا، اور ایک رول ماڈل کے طور پر تسلیم کیا۔ ورلڈ بینک کا یہ اسسمنٹ اے کے آر ایس پی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ورلڈ بینک نے مزید چار بار ادارے کے کام کا جائزہ لیا۔ اور اس کے کام کو عالمی سطح پر پزیرائی ملی۔ اے کے آر ایس پی کے عالمی ڈونرز میں کینڈین انٹرنشنل ایجنسی، اوکسفم، ڈچ گورنمنٹ، نارویجن گورنمنٹ، اور جی ٹی زیڈ (جرمن گورنمنٹ) وغیرہ شامل تھے۔

1989 سے لیکر 2003 کے عرصے میں آغا خان رورل سپورٹ کے کامیاب تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان میں کئی ادارے قائم ہوئے۔سرحد رورل سپورٹ پروگرام، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام ؛ پنجاب رورل سپورٹ پروگرام؛ سندھ رورل سپورٹ ارگنائزیشن؛ بلوچشستان رورل سپورٹ پروگرام اور پی پی اے ایف وغیرہ۔ 1994 میں یواین ڈی پی نے اے کے آر ایس پی کو بطور ماڈل سارک ممالک میں پھیلانے کےلیے شعیب سلطان سے معاہدہ کیا۔ اس طرح ساوتھ ایشاء پاورٹی ایلی وییشن پروگرام کا قیام عمل میں آیا۔ اور شعیب نے بطورِ سنیئر مشیر سارک کے چھ ممالک میں پائلٹ پروگرام شروع کیے۔ 

اختر حمید خان نے بارہ دفعہ شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا، اور بارہ رپورٹ بنائے جواس علاقے کے بارے میں اہم دستاویز ہیں۔ اختر حمید خان کہا کرتے تھے کہ تمھیں ایک مورخ کی ضرورت ہے تاکہ وہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ بنائے جو آپ لوگ دیہی ترقی کےلیے کررہے ہو۔ ورنہ مور کو جنگل میں ناچتے کس نے دیکھا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اے کے آر ایس پی کا مانیٹرنگ، ایوالویشن اینڈ ریسرچ سیکشن طارق حسین کی قیادت میں ہر اہم موقع پر آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کا اہتمام کرتے تھے۔ سریلنکا میں مہاویلی گنگا پروجکٹ کی ریکارڈنگ کےلیے یونیسف نے ایک کینڈین فلم کرو کو ہائیر کیا تھا۔ بوب شا نے اس فلم سے متاثر ہوکر 1983 میں اس فلمی عملے کو بلاکر اے کے آر ایس پی کے ابتدائی دنوں کی عکس بندی کرایا۔ آغا خان سپورٹ پروگرام کے ابتدائی چھ مہینوں پر محیط اس فلم کا نام "ویلیز ان ٹرانزیشن” ہے۔ اس کے دس سال بعد 1993 میں اسی عملے نے دوسرا فلم "فرسٹ ہرویسٹ” کے نام سے فلمایا۔ یہ دونوں فلم آغا خان رورل سپورٹ کے کام اور کامیابی کے اہم ثبوت ہیں۔ اس طرح شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغا خان دیہی ترقیاتی پروگرام کا پہلا مقصد (امدنی بڑھاو، غربت مٹاو) بہتر انداز میں حاصل کرلیا گیا۔ ویلیز ان ٹرانزیشن اور فرسٹ ہرویسٹ (فلموں) کے تقابلی جائزے سے کامیابی کے معیار کو جانچا جا سکتا ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button