خواتین کا صفحہکالم نگار

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی۔

آمینہ نگار

بونی اپر چترال

 

کورونا وائرس دنیا کے کونے کونے میں اس طرح زیرِ بحث ہے کہ شاید ہی کوئی مسئلہ اس طرح بیک وقت دنیا کے چپے چپے میں زبان زدِ خاص و عام رہا ہو ۔ اس موزی مرض کی شرح اموات دوسری کئی ایک امراض سے مرنے والوں کی شرح اموات سے زیادہ ہے ۔ اس عارضے کا شکار بے شمار مریض ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ اس مرض کا نہ صرف غریب لوگ شکار ہوتے ہیں بلکہ اس کے دربار میں پہنچنے کے بعد محمود ایاز ایک صف میں استادہ ہوتے ہیں ۔ اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر میں ، چہرے پر ماسک چڑھانا‘ بار بار ہاتھ صابن سے دھونا اور پُرہجوم جگہوں سے بچنے کی کو شش سے شاید اس سے محفوظ رہا جائے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ سب کو اس سے محفوظ رکھے ۔ لیکن کہیں خدا نخواستہ اس کی زد میں آئے تو جن حالات سے گزرنا پڑتا ہے یہ وہی لوگ اچھی طرح بیان کر سکتے ہیں جن پر یہ قیامت ٹوٹی ہو ۔ کیونکہ یہ وہ بیماری ہے کہ اس کو تن تنہا سہنا ہو تا ہے اور اکیلے لڑ کرشکست دینے میں کامیاب ہوئے تو زندگی کی رمق باقی رہتی ہے نہیں تو انسان ہمیشہ کی نیند سو جاتا ہے ۔ 

  بیماری میں تیمارداری کا رواج پرانا ہے پہلے یہ ہوتا تھا کہ گھر میں خدا نخواستہ کوئی بیمار پڑ جائے تو سب اس کے لیے پریشان ہوتے تھے اور اس کی صحت یابی کے لیے مسلسل اس کی خد مت میں لگے رہتے تھے۔ دن کے وقت رشتہ دار عیادت کے لیے آتے اور مریض کا دل بہلاتے تھے اور رات کو گھر والے اس کے ساتھ بیٹھ کر کبھی سر دباتے تھے تو کبھی ہاتھ اور پیر دبا کر آرام دلانے کی کوشش کرتے تھے جس کے نتیجے میں مریض کے درد میں افاقہ ہوتا تھا اور وہ کم عر صے میں صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا تھا لیکن کرونا میں چچا غالب کی دعا کو قبولیت ملی ہے ؎ پڑیئے گر بیمار تو تیمار دار کوئی نہ ہو ۔ کورونا نے بیمار کے سارے ناز و نخرے چھین لیے اب ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جو پہلے ہوتا تھا۔ ایک ایسے دشمن کے خلاف تن تنہا صف آرا ئی جو نظر وں سے اوجھل کسی کمین گاہ سے تیر برساتا ہو بڑے جگر جوکھوں کا کام ہے ۔ اس کار ِزار جنگ سے واپسی کی صرف دو صورتیں ہیں ، پہلی صورت یہ کہ آپ خوب ہمت آزمائی کریں اور دشمن کو شکست فاش دیں اور ددوسری صورت یہ کہ آپ اُس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور زندہ گی کو خدا حافظ کہیئے ۔

        چونکہ میں بھی اس کی زد میں آنے والوں میں سے ایک ہوں اس لیے خود پر بِیتے لمحات کو سب کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔قصہ یوں کہ کورونا کی آمد میں ہم انتہائی احتیاط برتتے تھے۔ ماسک کا مسلسل استعمال ،ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھونا اور سماجی فاصلہ رکھنا ایک معمول بن گیا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ سب کچھ کم ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ ہی دیا جہاں کہیں اس پر عمل کرنے پر زور ہوتا اور ماسک پہننے کے لیے کہا جاتا تو ہم ٹھوڑی کے نیچے لگائے ہوئے ماسک اوپر کر کے ناک کے اوپر لگاتے اور اس کو بھی دوسروں پر بڑا احسان سمجھتے۔ احتیاطی تدابیر چھوڑنے کا ایک جواز یہ پیش کرتے تھے کہ ہمارے یہاں کورونا ورونا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب بنائے گئے افسانے ہیں۔ اور دل ہی دل میں مطمئن تھے کہ اب کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔ پھر اچانک ایک شام کو طبیعت خراب ہوئی ۔ سر میں شدید درد اور بدن کے ہر حصے الگ الگ دکھنے لگے۔ پوری رات اس وہم میں گزری کہ نجانے کب بے ہوش ہونا ہے پھر اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی تو تھوڑی سی ہمت کر کے اٹھی لیکن ٹانگیں جواب دے گئی تھیں ۔ پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور روزمرہ کے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کی مگر دن ختم ہونے سے پہلے کمزوری اور بڑھ گئی اب تھوڑا سا یقین ہونے لگا کہ کورونا کے اثرات ہیں اور ان کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہے ۔ لیکن اب فائدہ نہیں تھا کیونکہ یہ پورے بدن کو اپنے لپیٹ میں لےچکا تھا اور آرام اور سکون نام کی چیز ختم ہو گئی تھی ۔ ارادہ کیا کہ کل ٹیسٹ کر کے باقاعدہ علاج کراؤں گی۔ لہذا پوری رات بڑی تکلیف میں گزارنے کے بعد جب صبح ٹیسٹ کیا تو پتہ چلا کہ واقعی کورونا نے دبوچ لیا ہے ۔ پھر کیا تھا کہ خود کی حالت بدل گئی اور میں اپنے آپ کو ایک الگ مخلوق سمجھنے لگی کیو نکہ یک دم لو گوں کے رویے بھی بدل گئے ایسا لگا کہ کوئی بڑا گناہ مجھ سے سر زد ہوا ہو جس کی سزا تنہائی کی صورت میں دی جارہی ہو ۔ کوئی آپ کے نزدیک آنے کو تیار نہیں اور ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جس کے پاس سے گزرو گے تو ایسے دور جابھاگیں گے جیسے میں کوئی خود کش دہشت گرد ہوں ۔ دن تو اسی طرح اسی نہج پر گزرے لیکن رات تو قیامت بن کر ٹوٹتی تھی ۔نیند کا غائب ہونا اور جسم کا مسلسل دکھنا اور سب سے تکلیف دہ بات ذہنی سکون کا ختم ہو نا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسا کہ مجھے کسی گہرے کنواں میں ڈالا گیا ہو یا کوئی بہت بڑا پہاڑ اوپر گر ا ہو ا ہو اورمیں اُس کے نیچے موت و حیات کی کشمکش میں زندگی کے دن گن رہی ہوں ۔ لاکھ جتن کے باوجود اپنے اپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اس حالت میں کوئی پاس نہیں ہوتا تھا جو کہ اپ کے درد کو سمجھے اور بانٹے۔ درد سے چور چور بدن ، تن تنہا جان اور شب کی تاریکی جو کہ طویل ہوتی جارہی تھی ، فقط قیامت صغرا تھی اور پروین شاکر کی غزل کے شعر کا یہ مصرعہ ” تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی ” اس بات کی غماز تھا کہ واقعی شب تنہائی تکلیف دہ ہوتی ہے چاہے ہجر کا ہو یا بیماری کا ۔ اور سوچ سوچ کے دل سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ خدا اس بیماری سے دشمن کو بھی محفوظ رکھے ۔ ۔ساتھ ساتھ وہ تمام باتیں اور حرکتیں بھی شدت سے یاد ارہی تھیں جو اس مصیبت میں پڑنے کے اسباب تھے۔ اور آ نے والے دنوں کے لیے منصوبہ بندی بھی بنائی جارہی تھی کہ اگر بچ گئے تو آئندہ وہ غلطیاں نہیں ہو نگی جن کی وجہ سے اس حال تک پہنچے ہیں۔ بحر حال ، پندرہ سولہ دن کے بعد ان مشکل حالات سے نکلنے کے آثار نظر آ نے لگے اور زندگی آہستہ آہستہ معمول کی طرف لوٹنے لگی لیکن اس دردناک حالت کا اثر دماغ پر ایسا ہو ا کہ کئی عرصے تک نفسیاتی دباؤ کا شکار رہے اور خود کو روز مرہ کی زندگی کی طرف لانے میں کافی وقت لگا ۔ یہ سب کچھ آپ سب سے بانٹنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بیماری ختم نہیں ہوئی اور ہمیں اب بھی بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ایک دفعہ اس کا شکار ہوئے دوبارہ نہیں ہونگے یا بہت سے لوگ ہوئے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ کیا پتہ یہ کب دوبارہ حملہ آور ہو اور پھر سے اس دردناک عذاب سے گزرنا پڑے ۔ اس لیے میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے حوالے سے اپنی مشاہدات بیان کرتی ہوں تاکہ ہم ان غلطیوں کو نہ دہرائیں اور اپنے اپ کو اس تکلیف دہ مرض سے دور رکھیں۔ 

۱۔ ماسک صحیح طریقے سے پہنیں اور کسی سے ملتے وقت ماسک نہ اُتاریئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ خاص کر کے خواتین ماسک پہنتی ہیں لیکن کسی سے ملتے وقت اسے اتارتے ہیں۔ اول یہ کہ ملنا ہی ضروری نہیں اگر بہت ہی ضروری ہے تو ماسک پہن کر ہی دوسروں سے ملیں۔ 

۲۔ ماسک کا صاف ہونا انتہائی ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ اس کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے اور بیماری کا خطرہ ہو۔کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ماسک پہنتے ہیں جو کہ پہننے کے قابل نہیں ہیں۔ 

۳۔ ہاتھوں کو صابن سے دھونا نہ بھولیں۔ اور جہاں پر صابن اور پانی میسر نہ ہو سینی ٹایزر کا استعمال کریں ۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ پانی اور صابن کی موجودگی میں اٹھنے کی زحمت کرنے کے بجائے بیٹھے بیٹھے سینی ٹائیزرز استعمال کرتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے۔ صابن اور پانی کی موجودگی میں ان سے ہاتھ دھونے کی کوشش زیادہ بہتر ہے ۔ 

۴۔ سماجی فاصلہ رکھنے کی پوری کوشش ہونی چاہیے اور لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ اپنوں سے مل کر ان کو تکلیف دینے سے بہتر ان سے دور رہ کر ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھ کر ملتے ہیں کہ مجھ میں کوئی جراثیم نہیں لہذا مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی یا یہ کہتے ہیں کہ میرے ایک بندے کے ملنے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ایک بندے میں اگر یہ جراثیم موجود ہیں تو وہ کئی اور میں منتقل ہو سکتے ہیں اور ان کا جینا حرام کر سکتے ہیں اس لیے لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جسمانی طور پر ملنے سے بہتر فا صلےرکھنا ضروری ہے تاکہ دوسروں کی صحت کو اپ کی وجہ سے نقصان نہ پہنچے۔ 

اُمید ہے کہ ہم سب مل کر معمول کے مطابق مقررہ طریقہ کار پر عمل کریں گے ۔اپنے اور دوسروں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اس بیماری کا مقابلہ کریں گے جو بھیس بدل کر وقتا فوقتا نمودار ہو تا ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button