اپر چترالتاریخ اور ادبطرز زندگیکالم نگار

شاہانہ آدمی تھے دلوں میں رہے گا(آخری قسط)

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

میرے اور صوبیدار (مرحوم ) چپاڑی کا پہلا رشتہ تکلّفات سے برطرف ہم مشرب ہم نوالہ دوستوں کا ساتھا لیکن میرا ان کے ساتھ دوسرا تعلق غیر ضروری تکلّفات کا رہا ۔پُر تکلّف تعلقات کا آغاز 1992 سے شروع ہوا جب اُن کی بیٹی اور میری خالہ زاد بہن ( حبیبہ ) کے ساتھ مجھے رشتہ ازدواج کی بندھن میں جکڑا گیا ۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی کیڈٹ کے ساتھ ایک انسٹریکٹر ( حوالدار) دوران تربیت بے تکلّف ہوتا ہے لیکن جوں ہی پاسنگ آؤٹ ہوتی ہے اُسی لمحے حوالدار قانونی طور پر سلوٹ مارنے کا پابند ہوتا ہے ۔ میں نے بھی پاسنگ آؤٹ کے بعد سلوٹ مارنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے پرانے زمانے کی یار باشی کو ہی کسی حد تک تازہ دم رکھا ۔ دستور یہ ہے کہ رشتہ داری میں کوئی بڑا ہو تو چھوٹا اُن کی دست بوسی کرتا / تی ہے۔ آپ رشتے میں صرف مجھ سے بڑے ہی نہیں تھے بلکہ میرے والد تھے اور میرا فرض تھا کہ ہر ملاقات میں دست بوسی کروں لیکن وہ مانع رہے ۔  

1999 کو مجھے ملازمت کے سلسلے میں گلگت منتقل ہونا پڑا یوں سال میں دو مرتبہ اُن سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اس سال میری اُن سے ملاقات 11 مئی ، 2021 کو ہوئی جو کہ ہماری اخری ملاقات تھی ۔

مرحوم حاکم اکبر علی خان کی فائیل فوٹو

اس سال وہ گزشتہ سالوں کی نسبت شاندار صحت سے تھے ۔ میں نے از راہ تفنن استفسار کیا کہ دادا جی کی عمر کتنی ہوگی ؟ بولے ، اَسّی سال سے اوپر ہوگئی ہے۔ میں نے کہا ” دادا جی آپ کی صحت اس سال تو بہت اچھی ہے ” ایک ہلکی سے تبسم کے ساتھ جواب میں بولے ” اس سے زیادہ عمر اچھی نہیں ہے بہت ہوا کسی کے لئے باعث تکلیف بن کر رہنے سے اٹھتے بیٹھے میں جانا ہی بہتر ہے ” ایسی باتیں کبھی بھی ہماری گفتگو کا حصہ نہیں رہی تھیں ۔ در اصل بلا کے نازک مزاج شخصیت کے مالک تھے اُنہیں سوزاک کی تھوڑی سی تکلیف تھی اور یہ اُن نازک مزاجی پر بوجھ تھی ۔ وہ مجھ سے محو گفتگو تھے ، ہاتھ میں چپاتی کا ٹکڑا تھا یوں چڑیو کا ایک جھنڈ ہمارے اوپر درختوں پر سے چہچہا چہچہا کر نیچے اُترے ۔ انہوں نے چپاتی کے ٹکڑے کو گول گول مگر بہت چھوٹے نوالے بنا کر اُن کی طرف پھینکتے ہوئے اُن کا مجھ سے تعارف بھی کرتے ہیں جن میں سے دو چڑیے نو وارد تھے انہوں نے دلی مسکرا ہٹوں سے نیئے مہمانوں کو کچھ زیادہ نولاے پھینک کر استقبال کیا ۔ اُن پرندوں میں سے ایک شریر چڑیا اُن سے اپنا قریبی رفاقت جتاتے ہوے جب سیدھا اُن کے ذانو پر بیٹھ کے اُن کے ہاتھ پر چونج سے مارنے لگا تو اُن کے چہرے سے ابھرنے ولا مسرت کا احساس دیدنی تھا ۔

بونی کے کوڈ -19 ہسپتال سے اُن کی جسد خاکی اُن کے آبائی گاؤں لے جاتے ہیں ہم اُن کے ساتھ تھے تو میری بیگم نے اُن کی بے جان جسم کی طرف دیکھا پھر میری طرف پرنم انکھوں سے دیکھتے ہوئے بھائی آواز میں کہا ” میں یتیم ہو گئی ” میں نے بولا ” آپ نہیں بلکہ بے شمار چڑیئے یتیم ہو گئے ” وہ تو ہم سے زیادہ اللہ کے اُن ننھی منھی مخلوق سے محبت کرے تھے اور اُن کا سہارا تھا ۔ آپ کی زندگی میں آپ کے بڑے صاحبزدے ذولفقار کے سب سے چھوٹے بیٹے سے کسی نے سوال کیا تھا کہ اس گھر میں بابا کا سب سے زیارہ پیار کس ہے ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ دادا سب سے زیادہ پیار ” چکست ” سے کرتے ہیں اور پھر مجھ سے ۔ چکست اُن کے کُتے کا نام ہے ۔ آج سے پانچ سال پہلے مستوج بازار ا میں کُتے کا ایک ننھا منھا اور لاغر بچہ اُنہیں ملا اُس کی ماں مر گئی تھی یا اُسے چھوڑ کر گئی تھی ۔ مرحوم نے اُسے اٹھایا اور گھر لا کے خوب پرورش کی ۔ میں نہیں مانتا تھا کہ کُتا واقعی وفا شعار جانور ہے لیکن صوبیدار ( مرحوم ) کو جب ہم نے حالہ خاک کیا تو چکست بھی موجود تھا ۔ ہم اُنہیں لحد میں اتار نے کے بعد کویا اپنے فرض سے سبکدوش ہوئے اور اُسے منوں مٹی کے نیچے چھوڑ کر گھر وں کو سدھارے لیکن چکست اپنے مالک کی زیارت کی نگہبانی سنبھالی ( فوٹو میں چکست اپنے مالک کی آرام گاہ میں اُن کے سرہانے پہرہ داری میں نظر آرہا ہے )

اُنہوں نے 15 دسمبر سن 1939 کو حاکم مستوج فرمان اکبر خان کے متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ چوئنج کے کٹورے استاد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اُن کی ہم جماعتوں میں چوئنج کی مشہور دینی شخصیت مولانا سکندر شاہ قابل ذکر ہیں ۔ سن 1959 کو 19 سال کی عمر میں چترال سکاؤٹ میں بھرتی ہوئے اسی عشرے میں شادی ہوئی اللہ نے بچوں سے نوازا جن میں 6 بیٹیان اور 5 بیٹے ہیں ۔ دوران ملازمت بھی اپنے اصولوں سے متصادم کسی بھی کام یا بات پر سمجھوتہ نہ کیا ۔ کہتے ہیں کہ 1982 میں چترال میں سنی اور اسماعیلی بھائیوں کے درمیاں کسی بدکیش نے پھوٹ ڈالا اور نتیجے کے طور پر حالات بہت سنگین ہوئے ۔ اُس زمانے میں صوبیدار ( مرحوم ) مستوج کی سکاؤٹ چھاونی میں کمپنی کمانڈر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے اپنی تمام تر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مستوج سے بونی کی جانب پیش قدمی کرنے والے مُشتغل بلوے کو بغیر کسی عسکری طاقت کے استعمال کے صرف اپنی ملائم زبان اور ذاتی اثرو رسوخ کے بل بوتے پر منتشرہونے پر مجبور کیا لہذا علاقے میں امن امان کو برقرار رکھنے میں کار ہائے نمایا ں کی انجام دہی پر 21 دسمبر 1982 کو Frontier Corps Peshawar کے اعلی ٰ حکام کی طرف سے تعریفی سند Award No. 1951 سے نوازا گیا ۔

برگیڈئیر (ر) خوش محمد اور سابق یوسی ناظم یارخون کے ہمراہ

ملازمت سے 1983 کو سبکدوش ہونے کے بعد آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP)میں ایڈ وائزر کی حیثیت سے کام کیا اور علاقے کے عوام کو (AKRSP کے مشن سے آگاہ کرنے میں آپ کی خدمات کا (AKRSP) نہ صرف معترف ہے بلکہ اُن کی خدمات کو بطور مثال سراہتے ہوئے پیش کرتی ہے ۔ زندگی کو زندگی کے حقیقی پیرایئے میں اگر کسی نے گزارا ہے تو وہ صوبیدار ( مرحوم ) اکبر علی ہیں ۔ لوگوں سے دوستی کی تو بھر پور کی ، مہمان نوازی کی تو دل سے کی ۔ ہر چھوٹے بڑے کو اُس کی ظرف کے مطابق عزت دی احترام کیا ۔ آزاد منش دوستوں کے ساتھ خوب گا یا اور خوب ناچ کے گزارا اور نزاکت پسندوں کے ساتھ بے حد متانت اور احتیاط سے گزارا ۔

27 جون، 2021 کی صبح 9:30 انجینئر محسن لال پاسوم نے مجھے فوں پر اُ ن کی علالت کی خبر دی وہ گزشتہ 13 دنوں سے کووڈ – 19 سنٹر بونی میں کورانا کے ساتھ محاز آرا تھے ۔ شوگر کی سطح اونچی ہوئی تھی اور گردوں پر دباؤ بڑھا تھا ۔ میں اپنی شریک حیات کو لیکر اُسی شام بونی پہچا ۔ اُنہیں اکسیجن لگا ہو ا تھا ، گنی چنی سانسیں تھیں جو کسی بھی وقت روٹھ سکتی تھیں ۔ صبح ہوئی تو اُن کے جسم کے ساتھ لگی مشینوں اور اُن کے آس پاس کھڑے ہسپتال کے عملے تیوروں سے ہمیں صاف وضاحت ہوئی کہ ہمیں وقوع پذیر ہونے والی کسی بھی ناخوشگوار واقعے کےلئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا ۔ میں نے اس سے پہلے کسی کو حالت نزع میں نہیں دیکھا تھا ۔ سوچتا تھا شاید بڑی تکلیف ہوگی ۔ لیکن مجھے اُن کی موت پر رشک آیا کیا شاندار سپردگی تھی جان کی ۔

 

سفر آخر کی تیاری

ایک شان و شوکت اور دبدبے سے گیا ، تمام بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں اور اہل و عیال کی موجودگی میں اپنی جان ، جان آفرین کی سپرد کی ۔ مشین پر سارے نمبر صفر تک آکے رکے تو ڈاکٹر نے کلمہ پڑھنے کا اشارہ کیا ۔ اُن کے منجھلے بیٹے شجاعت علی بہادر نے کلام پاک کی تلاوت کی اور دوسرے بیٹے امجد علی نے آنکھوں پر ہاتھ پھیرا ۔ میں نے اُن کے سر سے پاؤں تک دیکھا اور خیال آیا کہ 15 دسمبر 1939 کو پیدا ہوکر 28 جوں ، 2021 کے دن 11 بجکر 20 منٹ پر گل ہونے والے چراغ نے زندگی کے کتنے دن دیکھے تھے تو معلوم ہوا کہ انہوں زندگی کی 29781 بہاروں کا لطف اُٹھا یا تھا ۔

آخری آرام گاہ

غالبؔ نے زندگی کی اس بے ثباتی کو کتنی خوبصور پیرایئے میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں                  

؎ تیری فرصت کے مقابل اے عمر برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button