کالم نگار

آنکھ مچولی یا ملی بھگت

ارشاد مکرر

صدر پاکستان تحریک انصاف تحصیل دروش ،

ممبر امن کمیٹی پاک فوج،

ممبر پبلک لائیزان کمیٹی چترال پولیس

 

کئی عرصے بعد لکھنے کو مجبوراً دل نے چاہا ۔اس لیے معروض ہوں ۔زندگی میں بہت سے واقعات کامشاہدہ ہوتا رہتا ہے ۔تاہم چند واقعات ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف متاثر کن بلکہ پریشان کن ہونے کی وجہ سے ان پر بات کرنا ضروری بنتی ہے۔میں بحیثیت چترالی اپنے چترال سے متعلقہ نہایت ہی ضروری اور قابل افسوس واقعہ سنانے کے لیے قلم و کاغذ کا سہارا لے رہا ہوں ۔دل ہزار بار سوچنے پر یہ مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہےکیسے ہو رہا ہے؟ مگر ہو تو رہا ہے۔چترال میں منشیات مختلف مقامات پر کھلے عام فروخت ہو رہی ہے۔ہماری مستعد پولیس بھی بدستور موجود ہے ،مگر پولیسنگ کا نظام ہچکولے کھا رہا ہے۔چترال کے نوجوان آئے روز منشیات کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔اس کی وجہ منشیات کی کھلم کھلا دستبابی ہے۔منشیات فروش خود ہی اپنے چادر اور چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے منشیات کا ناجائز کاروبار کرتے ہیں ۔انکے لیے ویسے بھی اخلاقی اقدار کوئی معنی نہیں رکھتے ،عزت نفس انکے لیے کوئی خاص چیز نہیں ۔اسلیے منشیات فروش اپنے دھندوں کو جاری رکھنے کے لیے پولیس میں موجود اپنے جیسے عناصر کے ساتھ مراسم بناتے ہیں ۔انکے گھریلو اخراجات بر داشت کرتے ہیں اور بھاری رقم بھی عید جیسے اہم موقعوں میں منشیات فروش انکو عیدی بھی دیتے رہے ہیں ۔ان پولیس اہلکاراں کا کام نامی گرامی منشیات فروشوں کا پس پردہ دفاع کرنا ہوتا ہے۔جب بھی کوئی پولیس افیسر عدالت سے کسی منشیات فروش کے خلاف وارنٹ خانہ تلاشی حاصل کرتا ہے تو اسی لمحے منشیات فروش کو بھی باخبر کیا جاتاہے کہ وارنٹ لیا گیا ہے ۔لہذا آپ با خبر رہیں وارنٹ مجبوراً لی گئی ہے۔کیونکہ افسران بالا کی طرف سے ہم پر شدید دباؤ ہے ۔اس وجہ سے خانہ پوری کی نیت سے وارنٹ لی گئی ہے۔منشیات فروش کو بر وقت یہ بھی بتایا جاتا ہےکہ آپ پولیس کے آنے سے پہلے برائے مہربانی گھر سے کہیں دوسری جانب نکل جائیں اور بعد میں پولیس والے ایف آئی آر درج کرکے یہ لکھتے ہیں کہ بوقت چھاپہ ملزم کو گھر میں عدم موجود پایا گیا ۔منشیات فروش اور محکمہ پولیس میں موجود تمام نہیں بلکہ چند ایسے سیاہ چہرے بھی موجود ہیں جو اپنے فرائض منصبی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ذاتی لالچ میں آکر چترالی قوم کے نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور منشیات فروشوں کو مزید چھوٹ دینے کے لیےاُنکو یہ طریقہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ اسٹامپ پیپر پر بیان حلفی تحریر کرکے بر حلف اقرار کریں کہ وہ آئندہ منشیات فروشی سے باز رہے گا اور منشیات فروش کو یہ کہا جاتاہے کہ بیان حلفی کے بعد آپ بے فکر اپنا دھندہ جاری رکھو ۔افسران بالا تمہارے خلاف ایف آئی آر کرنے کو کہیں تو ہم بیان حلفی انہیں دکھا کر اُن کو قائل کریں گے اور آپ کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں ہوگی۔ یہ آنکھ مچولی محکمہ پولیس کے اہلکاراں اور منشیات فروشوں کمبائن ٹیم تشکیل دے کر چترال کے عوام کو حیران و پریشان کر رکھاہےکہ سب کچھ کیسے ہو رہاہے ۔میں نے یہ تو بتا دیا کہ سب کچھ کیسے ہوا رہا ہے۔اب میری گزارش محکمہ پولیس میں موجود اُن صاف ستھرے اہلکاران سے ہے جو کہ اپنے فرائض منصبی بخوبی انجام دیتے ہیں اور اُنکو یہ بات معلوم ہے کہ کون کونسے مگرمچھ ا ُن میں موجود ہیں جوکہ محکمہ پولیس کے نیک نام ایک بد نُما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ اس حیران و پریشان معاشرے میں اس مکروہ فعل یعنی پولیس منشیات فروش ملی بھگت کا خاتمہ ہو سکے اور اس مجبور و مظلوم عوام کی زندگی سکون و فرحت سے گزر سکے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button