اپر چترالپولوکھیل

شندور پولو گراؤنڈ

فاتح الدین

وادی شندور چترال کے چند خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ وادی شندور اپنی خوبصورتی اور اس میں واقع شندور جھیل اور قدرتی پھولوں گراؤنڈ کی وجہ سے پوری دنیا میں وادی شندور کو مقبولیت حاصل ہے ۔ وادی شندور میں واقعی پولو گراؤنڈ دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ میں شمار کیا جاتا ہے۔اور اس گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے پولو فیسٹیول چترال اور گلگت کے درمیان فری سٹائل پولو میچ پاکستان پاکستان سمیت پوری دنیا میں مشہور ہیں ۔فری سٹائل پولو اور اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحت پر توجہ کا مرکز رہا ہے ۔ انیس سو سینتالیس کے آزادی سے پہلے جب برصغیر میں بیٹی دراز ہوا کرتا تھا اس گراؤنڈ میں گولف کا کھیل کھیلا جاتا تھا۔ بعد میں یہاں چترال اور گلگت میں کن کن ٹیموں کے درمیان پولو کا کھیل یعنی باتوں کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ 1982 کے بعد شہزادہ سکندر الملک اور چترال کے بابا مشہور بستی ان کے کوشش کی بدولت یہاں پر گلگت اور چترال کے درمیان پولو کا فیسٹویل 7،8،9جولائی کو ہر سال منعقد کیا جاتا ہے ۔ اپنی بلندی اور شاہی کھیل پولو کی وجہ سے پوری دنیا میں سیاحت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔وادی چترال اور گلگت کے درمیان کھیلے جانے والا پولو کا کھیل اپنی فری سٹائل ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں ۔یہ دنیا کا واحد کھیل ہے اس میں جج یا امپائر نہیں ہوتا ۔یعنی یہ فری اسٹائل کھیل ہیں اس میں حصہ لینے والے کھلاڑی کسی بھی طرح اپنی ٹیم کو دفن کریں گے اس میں فول کو تصور نہیں کیا جاتا ۔ اس پولو میچ میں چھ چھ چڑیوں میں مشتمل دو ٹیمیں حصہ لیتے ہیں ۔یہ کھیل خطرناک ہونے کے ساتھ ہزاروں تماشائیوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے ۔شندور پولو گراؤنڈ سطح سمندر سے 3837میٹر کی بلندی پر ہے۔اور یہ خوبصورت وادی پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو ملاتا ہے چترال سے 164کلو میٹر اور گلگت بلتستان سے 211کلو میٹر کا فاصلہ رکھتا ہے ۔ اپنی چاروں اور حسین جمیل دلکش ہریالی قدرتی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں یہاں پر واقع شندور جھیل بھی دنیا کے دنیا کے بلند ترین جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے نیلے رنگ یہ جیل بھی شندور کے خوبصورتی میں بے حساب اضافہ کرتا ہے ۔ دنیا بھر سیاہ شاہی کھیل پولو اور خوبصورت وادی کی خوبصورتی کو اپنے کیمروں کے آنکھوں میں قید کر لیتے ہیں۔ یہ وادی شندور یعنی شندور پاس سال کے سات مہینے سخت سردی اور برف باری کے لپیٹ میں لیتا ہے اور چار سے پانچ ماہ کے لیے گلگت اور چترال کے درمیان ہونے والی زمینی راستے منقطع ہو جاتے ہیں ۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button