اپر چترال

سانحہ اوناوچ کا ذمہ دار کون ؟؟

 

شیر ایاز

سانحہ اوناوچ کا زمہ دار کون

یارخون اوناوچ میں بچوں اور خواتیں سمیت دس مسافروں کا گاڑی سمیت پل سے نیچے گرنا بہت ہی افسوسناک ناک اور دلخراش واقعہ ہے- اللہ تعالی وفات پانے والوں کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے- ہم دکھ کی اس گھڑی میں ہر ایک غمزدہ خاندان کیساتھ ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں- 

مجھے اس سانحے سے بھی ذیادہ دکھ اس بات پر ہے کہ چترال کے عوام اور خاص کر یارخون کے عوام اپنے بنیادی حقوق سے غافل ہاتھی کے کان میں سوتے رہتے ہیں- ملک بھر میں جو نظام کسی نہ کسی شکل میں ضعیف حالت میں بھی نظر آتا ہیں- یہاں پہنچ کر نہ کوئی نظام نظر آتا ہے اور نہ قانوں- اجتماعی طور پر عوام اپنے بنیادی حقوق اور سماجی مسائل کیلئے آواز اٹھانا جرم تصور کرتے ہیں-

عوامی رفاعی کاموں اور سرکاری تعمیرات میں معیار کو بہتر بنانے اور تعمیرات کو مجوزہ نقشے کے عین مطابق بنانے کیلئے کوئی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس حوالےسے آواز اٹھانا اپنی ذمہ داری- جسکی وجہ سے معیار میں سمجھوتہ ہوتا ہے-

اور جب سروس ڈلیوری کا وقت اتا ہے تو کام اپنا معیار خود بتاتا ہے- جس سے لوگ جانی اور مالی طور پر متاثر ہوتے رہتے ہیں- عوام بعیر شکایت ہر مصیبت ہر تکلیف سہتے رہتے ہیں – شاید ہم سب اس کے عادی ہوچکے ہیں جسطرح کوئی افیون میں مبتلا شخص عادی ہوتا ہے اور اس کو نہیں لگتا کہ وہ بری عادت میں مبتلا ہے – بلکہ ایک کمال ہم اجتماعی طور پر یہ بھی کرتے ہیں کہ جہان سے یا جس کام سے ہمیں فائدہ ملتا ہے یا جس پروجیکٹ سے پیداور حاصل ہوکر عوام کو ملتا ہے جہان سے سینکڑوں لوگ استفادہ حاصل کرتے ہیں وہاں ہمیں فورا خرابی بھی نظر اتی ہے اور ہماری شعور کو بھی مہمیز ملتی ہے اور ہم ایک لمحے میں کامیابی کے طویل اور دشوار گزار داستان کو اپنی کوتاہ نظری سے ناکامی کے گھٹن زدہ کنارے پہنچانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں-

 اور جہان عوام کو نقصان پہنچنے اور جان جانے کا خدشہ ہو جہاں ہم بات کرنے سے الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھا سکتے ہیں جہاں بگڑے ہوئے کام کو بنا سکتے ہیں- وہاں ہم مجرمانہ چپ سادھ لیتے ہیں اور خواب خرگوش کا مزہ لیتے ہیں- انسانی غفلت اور غیر معیاری کاموں کی وجہ سے سانحات کو قسمت کے اوپر ڈال کر اپنے جرم بھی آسانی اور مکاری سے چھپا لیتے ہیں- 

وقت اگیا ہے کہ علاقعے کے ذی شعور لوگ اپنے بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرے- سیاسی ,نسلی اور علاقعائی جانبداری کے خول سے نکل کر ہی چیزوں کو اپنی اصلی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے- اس لئے ہمیں اپنی خولوں سے سر باہر نکال کر اپنی نقصان اور فائدے کو دیکھنا چاہیے-

حالیہ ایکسڈٹ بھی عوام کا اپنی حقوق سے بے خبری’ غفلت اور پست معیار کے کام کا نتیجہ ہے- ڈرایئورکا غیر معیاری پل پر اتنے مسافروں اور سامان سمیت سفر کرنا بھی جرم ہے- کیونکہ علاقعے کے سب لوگوں اور خاص کر ڈرائیور حضرات کو پتہ ہے کہ یہ پل لوڈڈ گاڑی کے متحمل نہیں ہے- البتہ ہلکی گاڑی گزر سکتے ہیں- علاقعے کے ڈرائیورز کا مشاہدہ اس پل کے بارے میں منفی ہے- پل کراس کرتے وقت بہت ذیادہ جھول پیدا ہوتا ہے اس وجہ سے ان کا خیال ہے کہ یہ بدقسمت گاڑی بھی جھول کی وجہ سے اپنی توازن کھو کر دریا برد ہو چکی ہے- 

اب عوام کو سوال کرنا چاہیے اس پل کا معیار اور استعداد کیا تھا کیا یہ اسی طرح بھاری گاڑی گزارنے کا متحمل تھا- کیا اس پل کی تعمیر کسی انجینئر اور مجوزہ محکمے کی اجازت سے ہوئی تھی- کیا وسائل کافی تھے- کیا صرف 25 لاکھ روپے کو جسٹیفائی کرنے کیلئے دریائے یارخون کے اوپر پل بنایا جاسکتا ہے ? 

نہیں تو ذمہ دار کون? کیا ہم یوں مرتے رہیں گے-

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button