کالم نگار

پھول تورنے والے پتے نوچین گے

خالد محمود ساحر

 

دو شخص کہیں سفر پر جارہے تھے ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین۔دونوں کھانا کھانے ایک جگہ بیٹھے تھے کہ تیسرا آدمی آگیا۔اس نے سلام کیا۔ انھون نے اس کو بھی بیٹھنے کے لئے کہا تو وہ بھی کھانے میں شریک ہوگیا ۔جب آٹھ روٹیاں کھا کر سب فارغ ہوگئے تو تیسرے آدمی نے اپنے حصے کی روٹیوں کی قیمت آٹھ درہم ادا کردی اور چلا گیا۔

جس شخص کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اس نے پانچ درہم رکھ کر تین دوسرے شخص کو دینے چاہے جس پر وہ راضی نہ ہوا اور نصف کا مطالبہ کیا۔دونوں میں رضامندی نہ ہوئی تو معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔

دونوں حضرت علی کے حضور پیش ہوئے۔حضرت علی نے ان کی بات سنی اور دوسرے شخص کو سمجھایا کہ تم تین درہم ہی لے لو اس میں تمھارا فائدہ ہے اور دوسرا شخص بھی اس پر رضامند ہے مگر اس شخص نے کہا کہ نہیں مجھے انصاف چاہئے اور آپ کا انصاف پر مبنی ہر فیصلہ مجھے منظور ہوگا۔

حضرت علی نے فرمایا کہ تب تو آپ کو صرف ایک درہم اور دوسرے شخص کو سات درہم ملیں گے۔

اس عجیب فیصلے پر وہ حیران ہوا اور کہا کہ وضاحت فرمائیں تاکہ میں اس فیصلے کو قبول کروں۔

حضرت علی نے فرمایا ؛ تم تین آدمی تھے، تمھاری تین روٹیاں تھیں اور تمھارے ساتھی کی پانچ. تم دونوں نے برابر کھائیں اور تیسرے کو بھی برابر کا حصہ دیا۔تمھاری تین روٹیوں کے تین تین حصے کئے تو نو ہوگئے اور اس کی پانچ روٹیوں کے تین تین حصے کئے تو پندرہ ہوگئے ان دونوں کو جمع کرو تو کل چوبیس حصے ہوئے جسے تم تینوں نے برابر کھایا یعنی تم میں سے ہر ایک نے آٹھ آٹھ حصے ٹکڑے کھائے.تم نے اپنے نو ٹکڑوں میں سے آٹھ خود کھائے اور ایک ٹکڑا تیسرے شخص کو دیا جبکہ دوسرے نے اپنے پندرہ ٹکڑوں میں سے آٹھ کھائے اور سات تیسرے شخص کو دئیے۔اس طرح تمھارے حصے میں ایک درہم اور تمھارے ساتھی کے حصے میں سات درہم آتے ہیں۔

آپ کا یہ فیصلہ سن کر وہ شخص مطمئین ہوگیا۔کیا ہی عقلی اور معیاری سوچ تھی فیصلہ کس قدر مدلل اور منطقی تھا.

اسی نوعیت کا ایک عجیب و غریب مقدمہ عوام کی کھلی کچہری میں ڈھائی سالوں سے زیر سماعت ہے.

مقدمے میں سابق حکمران پارٹیوں نے موجودہ حکومتی پارٹی کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے کہ حکومتی پارٹی گلستان عزیز کی رکھوالی کے اہل نہیں ہے.سابق حکمران پارٹیاں جلد از جلد اس مقدمے کا فیصلہ چاہتے ہیں. فیصلے میں التوی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور الزام عائد کررہے ہیں کہ ڈھائی سال کی مہلت کے باوجود حکومت چمن کو آباد کرنے میں ناکام ہوگئی ہے.

25 جولائی 2018 کو پاکستان تحریک انصاف نے چمن عزیز کی رکھوالی کی ذمہ داری سنبھالتے ہی بیان دیا تھا کہ پچھلی حکومتوں نے چمن اجاڑ کر ان کے حوالے کیا ہے جسے دوبارہ آباد کرنا مشقت طلب,صبر طلب اور وقت طلب ہے. حکومتی پارٹی نے عوام کی کھلی کچہری میں الزام عائد کیا تھا کہ گلستان عزیز کی خستہ حالی کے ذمہ دار سابق حکمران پارٹیاں ہیں جو کئی برس سے اس چمن کی رکھوالی پر معمور تھے.حکومت وقت عوام کی عدالت سے اگلے انتخابات تک فیصلے کی مہلت مانگ رہی ہے.

پچھلے سال راولپنڈی اسٹیڈیم کے قریب واقع "نواز شریف پارک” جانا ہوا. لوکیش پر پہنچنے کے بعد گوگل سے بھی لوکیشن کی تصدیق کروائی لیکن بورڈ پر "علامہ اقبال پارک” لکھا ہوا تھا.پوچھنے پر پتہ چلا کہ خان صاحب نے پارک کا نام تبدیل کردیا ہے.

داخلی دروازے پر کوئی چوکیدار موجود نہیں تھا اندر داخل ہوئے پارک کی حالت بہت خراب تھی کسی قسم کی سہولت موجود نہیں تھی.مالی سے لیکر صفائی والے تک سب کا کام ناقص تھا.

پارک کا افتتاح میاں محمد نواز شریف نے 1988 میں کیا تھا جب آپ پنجاب کے وزیر اعلی تھے اس وجہ سے یہ پارک نواز شریف کے نام سے منسوب اور مشہور ہے. بتیس سالوں سے کسی نے بھی پارک کی طرف توجہ نہیں دی تھی اور بتیس سال بعد پارک کی حالت تبدیل کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کے بجائے نام تبدیل کرنے کا فیصلہ احمقانہ لگا. 

        نام کا عکس بھی آئینۂ کردار میں رکھ

        نام اخلاق سہی نام میں کیا رکھا ہے        

کچھ دن پہلے دوبارہ اسی پارک میں جانا ہوا داخلی دروازے پر چوکیدار کھڑا ڈیوٹی دے رہا تھا.واکنگ پاتھ مختص کئے گئے تھے جن کے ساتھ پھولوں کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں مالی اپنے کام پر معمور تھا صفائی کا خیال رکھا گیا تھا پارک پر آنے والے لوگ بھی پارک کا خیال رکھ رہے.انتظامیہ کی توجہ,مالی کی مشقت صفائی والے کی فرض شناسی اور پارک پر آنے والوں کی احساس ذمہ داری نے ایک اجھڑے ہوئے خستہ حال پارک کو آباد کیا تھا. ہم ایک نئے اور خوبصورت پارک میں کھڑے تھے.

گلستان عزیز کو دوبارہ مہکانے کے لئے بھی وقت, صبر, محنت, حکمرانوں کی فرض شناسی اور عوام کی احساس ذمہ داری درکار ہے. اس کی خستہ حالی کے ذمہ دار وہ باغبان ہیں جو تیس سالوں سے اس کی رکھوالی پر معمور تھے اس چمن کی رکھوالی کی ذمہ داری دوبارہ ان باغبانوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ سب سے احمقانہ فیصلہ ہوگا.

 عمران خان کو ملکی بھاگ دوڑ سنبھالے ڈھائی سال ہوگئے ہیں اور ان ڈھائی سالوں کا موازنہ کسی صورت سابقہ حکمرانوں کے ادوار سے نہیں کیا جاسکتا.

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button