تورکھوکالم نگار

استاذ حسین اللہ ، استاذ الاساتذہ

عنایت جلیل قاضی

کچھ خاندانوں پراللہ بڑامہربان ہوتا ہے، ان کو عزت، شہرت، ذہانت اور تعمیری سوچ سے نوازتا ہے۔ ان کا ہر کام، کمالِ فن ہوتا ہے۔ وہ جس مٹی کو چھوتے ہیں ، سونا بنا دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے دشمن بہت کم اور دوست ذیادہ ہوتے ہیں کیوںکہ، دشمن کو دوست بنانے کا فن اِن لوگوں کو خوب آتا ہے۔ ان کی سرشت میں قیادت کا عنصرشامل ہوتا ہے اور یہ خاندان پشت در پشت عوام الناس کی قیادت کرتے رہتے ہیں۔ بےپناہ صلاحیتوں اوراسائیشوں کے باوجود، ان لوگوں میں تکبر کا شائیبہ تک نہیں ہوتا اور منکسرا لمزاجی سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔
حُسین اللہ استاذ کی بات کریں تو ان کے خاندان کا پس منطر بھی مندرجہ بالا صفات حمیدہ سے مزئین چلا آرہا ہے۔ ان کے پردادا، میرمحمد اشرف (تاریخ وفات1763 )رائیس بادشاہ۔ شاہ عبدالقادر کے دور میں تورکھو کے میرتھے۔ کٹور دور میں، میر کا منصب چارویلو میں بدل دیا گیا تواسی خاندان سے زرین شاہ، شاہ زرین، نیاز زرین دوران شاہ، چارویلو کے عہدے پر فائز ہوے۔ نیاز زرین کے بارے میں، چترال میں مقیم انگریز آفیسر اور مورخ گرڈن (میجر گیڈین) لکھتا ہے "نیاز زرین چارویلو،گورنرتورکھو، شہزادہ مظفرالملک کا مشیرخاص ہے جوان کی غیر موجودگی میں تمام انتظامی امور سنبھالتاہے”


دوران چار ویلو اس خاندان سے آخری میرِعلاقہ (چارویلو) تھے اور اپنی بلند ہمتی، وفاداری کی وجہ سے وادئی چترال اور آس پاس کی ریاستوں میں بڑا رعب و دبدبہ رکھتےتھے۔ ان کی چھ بیگمات تھیں اور ان سے گیارہ بیٹوں اور چار بیٹیوں پر مشتمل ایک بڑا کنبہ ہے۔ دوران چارویلو کے تمام بیٹے ،پوتے پوتیاں بھی ایک فعال سماجی اور سیاسی ذندگی گزار رہے ہہں۔ اسی خاندان سے فلک ناز صاحبہ، اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی نشست پر سنیٹر منتخب ہوچکی ہیں اور ملاکنڈ ڈیویژن سے پہلی منتخب خاتون سنیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرچکی ہے جبکہ حاجی عید الحسین عوامی نیشنل پارٹی چترال کے صدر ہیں۔ صفت زرین پاکستان مسلم لیگ نون چترال کا صدر رہا ہے۔ ۔ دوران چارویلو مرحوم کا ایک بیٹا بینک کی ملازمت سے فارغ ہوکراسلام آباد میں مقیم ہیں۔حسین زرین اپنے علاقے میں ایک سماجی و سیاسی کارکن کے طور پر فعال کردار آدا کر رہا ہے۔ اس خاندان کے لوگ سیاست کے علاوہ تعلیم، وکالت، تجارت، دفاع اور ذندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں اور اپنے اپنے پیشوں میں با کمال ہیں۔ لیکن استاذ محترم حسین اللہ کا کوئی مول نہیں ہے کیونکہ وہ ایک استاذ تھے اور استاذالاساتذہ بھی۔ استاذ کا درجہ روحانی باپ کا ہوتا ہے اور حسین اللہ جیسا استاذ صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے کوئی سات آٹھ سال پہلے کھوارنصاب سازی پر ایک گروپ کام کر رہا تھا اور یہ حقیر بھی اس گروپ کا حصہ تھا۔ مختلف جماعتوں کیلئے بینچ مارک، سٹینڈرڈ اور ایس ایل اوز بناتے وقت شخصیات پرمضامین لکھنے پر بحث شروع ہوئی تو شرکا کے آباو اجداد ان کو یاد آنے لگے۔ گروپ میں سے دو افراد (ایک مرحوم، دوسرا حیات) میرے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ تورکھو سے علمی خدمات والی شخصیات نہیں مل رہی ہیں، کیا کیا جائے۔ میں اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ پایا۔ فوراً میرے ذہن میں اس میدان کے چار پانچ شہسوار نظر آئے۔ ان میں سے ایک قاضی منفعت خان تھے،جس نے تورکھو کے تمام بڑے لوگوں کو پڑھایا لیکن چونکہ انتخاب ایک مخصوص نقطہ نظر پر پورا نہیں اترتا تھا تو میں نے خاموشی کو بہتر جانا۔ دوسری شخصیت حسین اللہ استاذ کی تھی جن کی خدمات کو تسلیم نہ کرنا تعلیم و تعلم سے ذیادتی ہوگی۔ باقی اساتذہ میں میر حیدر علی خان، مرحوم و مغفور امیرشاہ اور مصطفے کمال کی ہیں جن کی تعلیمی خدمات کو فراموش کرنا بہت بڑا ظلم ہوگا۔ لیکن میری ان باتوں پر اہل مجلس متفق نہ ہوے اور ان شخصیات کی جگہ وادی تورکھوو کی سئر کا عنوان ڈالا گیا۔


حسین اللہ استاذ کو میں دوران چارویلو کے پندرہ بچوں میں سب سے مقدم سمجھتا ہوں کیونکہ اس ہستی نے، اس زمانے میں لوگوں کو علم سے آراستہ کیا، جب تعلیم ترجیح نہیں تھی۔ وسائیل نا پید تھے۔ پیدل چترال کے دوار افتادہ علاقوں میں پھرنا پڑتا تھا۔ قصہ مشہور ہے کہ حسین اللہ استاذ ،علاقہ کھوت کے ایک گدام (پراکاڑ) میں بچوں کو پڑھایاکرتے تھے۔ ان کا اخلاق بے مثال اور پڑھانے کا انداز بڑا دلنشین ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد ان کا بہت احترام کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ انشا اللہ بعد از وفات بھی ان کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ ہر شاگرد کے دل و دماغ میں وہ زندہ رہے گا۔
حسین اللہ استاذ،خاص چترال کے گاؤں مستاجباندہ میں،1940کو پیدا ہوے۔ اسٹیٹ ہائی سکول چترال سے میٹرک تک تعلیم حاصل کیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ تقریباً تین دہائیاں اس پیشے کو دیکر، چالیس ہزار طلبا کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد سبکدوش ہوکر گوشہ نشین ہوچکے تھے۔ کیونکہ اب ان کے بچے بڑے ہوگئے تھے اور خود صاحب جائیداد ہونے کی وجہ سے غم روزگار سے بے غم ہوگئے تھے۔ ان کا ایک بیٹا فہیم پاک آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بیٹی حال ہی میں سنیٹر منتخب ہوچکی ہیں۔ ایک بیٹا شہزاد عالم سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اپنی بیٹی فلک ناز کے سنیٹرمنتخب ہونے پر اپنی ڈائیری کے ایک صفحے پر کچھ یوں رقم طراز ہیں
شاندار یاد داشت
"بارہ مارچ 2021 ، فلک ناز، بطور سنیٹر حلف وفاداری اٹھائی تواس وقت ہم حیدارآباد میں تھے۔ (مورخہ 22 مارچ 2021)۔ اس موقع پر استاذ محترم، میجر فہیم کے پاس حیدر آباد سندہ میں مقیم تھے۔

استاذ محترم کے خاندان اورعقیدت مندوں سے میری گزارش ہوگی کہ ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کیلئے ایک تعلیمی سکالرشپ یا ایوارڈ کا اجرا کیا جائے جس کا نام استاذحُسین اللہ تعلیمی اوارڈ رکھا جائے اور اس ایوارڈ سے ان طلبا کی مدد کی جائے جو فطین ہیں لیکن غربت کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔
اسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔ سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button