نیا اضافہ

خصوصی افراد اور ہمارا معاشرہ

محمد عبد الباری

خصوصی افراد اور ہمارا معاشرہ

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کر کے مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کر رکھا ہئے۔ ہر قبیلے اور ہر خاندان کے تمام افراد مل جل کر زندگی گزار رہے ہیں۔ انسانوں کا یہ اجتماعی اور مشترکہ ذندگی معاشرہ اور اس معاشرے میں بسنے والا ہر شخص معاشرے کا فرد کہلاتا ہئے۔ بنیادی ذندگی میں یہ تمام افراد ایک دوسرے کے لیئے بہت اہم ہیں ان کی اشتراک اور میل جول کے بغیر ذندگی نامکمل ہے۔ اسلیئے بنیادی ضروریات زندگی میں مشترکہ روابط موجود ہیں اب ضروری یہ نہیں ہے کہ تمام افراد ایک ہی قبیلے، ایک ہی مذہب یا قوم یا ہر لحاظ سے ایک ہی جیسے ہوں ان میں ایک دوسرے کے مقابلے میں اونچ نیچ ہونا چاہیئے. معاشرے کی بقا کے لئے ایک دوسرے کے کندھے سے کندہ ملا کر ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں گے تو یہی ذندگی کا حسن ہئے۔ 

اسلام نے مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کی اس تصور کو مزید تقویت دے کر معاشرے کی بقا کے لیے بھائ چارگی کا تصور پیش کرتا ہئے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک گھر میں رہنے والے سگے بہن بھائ اور باقی خاندان والے ہلکے پھلکے اختلافات کے باوجود آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح معاشرے کے تمام افراد کو بہی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوے آپس میں پیار محبت کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ پر سکون ذندگی میسر ہو سکے۔ کیوں کہ جب تک کسی معاشرے میں بسنے والے ہر شحص کو بنیادی حقوق یکساں طور پر میسر نہ ہو اور جب تک ہر شحص کو اس کی بنیادی ضروریات اس معاشرے میں رہتے ہوے میسر نہ ہو تو اس معاشرے کو ایک اچھا معاشرہ تصور نہیں کیا جا سکتا ہئے۔ معاشرے میں بسنے والے ایک کمزور فرد (چاہئے وہ ذہنی، جسمانی، یا معاشرتی کمزوری ہو) اور ایک طاقتور فرد کے درمیاں کم از کم بنیادی حقوق کے لحاظ سے امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ 

اب میں ضروریات زندگی اور بنیادی حقوق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، البتہ تفصیلی بحث ممکن نہیں لیکن عنوان سے متعلق جو بہی ہونگے ذکر کیا جائے گا انشاء اللہ۔ ساتھ ہی یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ بندہ حقیر کی یہ ادنا سی کوشش اس اہم موضوع کو سمجھنے میں کارگر ثابت ہو گا انشااللہ۔ 

دنیا میں تشریف لائے والے ہر بچے کے کچھ بنادی حقوق اور ضروریات ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ان کے والدیں، عزیزواقارب پر فرض ہئے۔ بچے کی نشوونما کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ بچہ مستقبل میں آنے والے جسمانی اور ذہنی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں۔

بچے کی تربیت کرنا سب سے اہم اور سب سے بنیادی ضرورت ہے یہ والدیں اور اس معاشرے میں رہنے والے ہر عاقل و بالغ پر فرض ہے کہ وہ آپنے اور آپنے معاشرے میں رہنے والے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیے تاکہ بڑے ہوکر یہی بچے معاشرے کے لیے بوجھ نہ بن جائیں۔

تعلیم حاصل کر نا بلاامتیاز ہر انسان کا بنیادی حق ہئے اور ہر فرد تعلیم کی اہمیت اور ضرورت سے بخوبی واقف ہے۔ اس لئے بچے کی ابتدائی تعلیم ان کے والدیں پر فرض ہئے والدیں کو چاہئے کہ آپنے بچوں کو بلاامتیاز (معزور ہو یا تندرست ہو) کم از کم اتنا تعلیم دے دیں کہ وہ مستقبل میں اس تعلیم کی بدولت خود مختار زندگی گزار سکے۔

تمام بچوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے کسی بچے کو اس کی معزوری یا کمزوری کی بنیاد پر نظر انداز کرنا۔ کسی بچے کو اس کے بنیادی حقوق کے معاملے میں اس کی معزوری یا کمزوری کی وجہ سے نظر انداز کرنا کم ازکم اخلاقی اعتبار سے بھی مناسب نہیں بلکہ ہونا تو یوں چاہئے کہ اگر کوئ بچہ کسی بھی لحاظ سے کمزور یا معزور ہو تو اس کو ذیادہ سے ذیادہ اہمیت دیا جائے تاکہ وہ زندگی کی مشکلات کے ساتھ مقابلہ کر نے کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو سکے۔ 

محترم قارئیں یاد رہے کہ یہاں ان چند بنیادی حقوق کا ذکر کرنے کا مقصد آپ لوگوں کی توجہ کو آپنے معاشرے میں پائے جانے والے چند غلطیوں کی طرف مبذول کرنا تھا۔ انہی چند غلطیوں سے متاثر ہونے والے افراد کو دنیا خصوصی افراد (Special Person/ Disabled Person ) کے نام سے جانتی ہئے اور یہی آج کے عنوان کا اہم حصہ ہئے۔ 

خصوصی افراد سے میرا مراد ہمارے وہ بہن بھائ ہیں جو جسمانی طور پر یا ذہنی طور پر کمزور یا معزور ہیں۔ پوری دنیا میں اگر آپ دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح یہ خصوصی افراد محنت اور لگن سے اپنے کامیابی کا لوہا منوا رہے ہیں آپ حیران ہو جائیں گے۔۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ باقی تمام ممالک میں انہی خصوصی افراد پر خصوصی توجہ دیا جاتا ہئے اور انکی تمام تر صلاحیتیوں کو بروئے کار لانے کے لیے ان کی تمام تر ضروریات کو ان کی ضرورت کے مطابق پورا کیا جاتا ہئے اس لئے وہ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اور اب تک دنیا میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیے چکے ہیں کہ شاید ہی کوی عام انسان (Non Disabled) سر انجام دے سکے۔۔ بس فرق صرف اتنا ہئے کہ ہمارے یہاں ان خصوصی افراد کو وہ تمام تر سہولیات میسر نہیں ہیں جن کے وہ حقدار ہیں۔مزید یہ کہ ہمارے معاشرے میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہئے اور ان سے کچھ ایسے جملے منسوب کیئے جاتے ہیں جو کم ازکم میرے لیئے ناقابل بیان ہیں۔ ان کی معزوری کو مدنظر رکھ کے ان کو اس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے گویا کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئ اور حقیر مخلوق ہیں بلکہ اکثر ان کا مزاق اڑاتے ہوے نوجوان طبقے کو لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہئے۔ اور تو اور معاشرے کی اس بےحسی کی وجہ سے ان کے سگے ماں باپ بھی ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتے ہیں، تعلیم جیسی نعمت سے بہی ان کو محروم رکھا جاتا ہئے۔

محترم قارئین اگر میں یوں کہوں کہ ہم بہت ظالم ہیں ان حصوصی افراد کے لئے تو غلط نہیں ہوگا۔ یقیننا اس ظلم کے بارے میں بروز قیامت ہم سے پوچھا جایگا اور ہم آپنے کیئے پر نادم ہونگے۔۔ اللہ پاک ہمیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔

چند اہم اقوال پیش خدمت ہیں۔۔

 The downside of my celebratiy is that i can not go anywhere in the world without being recognized. It is not enough for me to wear dark sunglasses and a wig.

The wheelchair gives me away. 

       (Stephen Hawking)

The worst thing about a disability is that people see it before they see you… 

     (Easter Seals)

The only thing worse than being blind is having sight but no vision.

     (Helen Keller) 

The only true disability is the inability to accept and respect differences..  

       ( Upjourney)

خصوصی افراد کے بارے میں تفصیل انشا اللہ بہت جلد آپ لوگوں کے خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ انشا اللہ۔

شکریہ۔۔۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button