کالم نگار

احساس کے آنسو

 

شاد سرحدی

احساس کے آنسو

ہوش کے دہلیز میں قدم رکھتے ہی آگاہی کا سامنا ہوا، یہ بہت مشکل مرحلہ تھا، جب تک سمجھ بوجھ نہیں تھی، بادشاہوں سی زندگی تھی، صرف پیٹ اور کھیل تک ذھن محدود تھا، پیٹ بھر گیا اور کھیل کود کا موقع مل گیا گویا زندگی کے مقصد کو پالیا، گھر چلانا کس قدر بار گراں ہے، زندگی کی گاڑی چلاتے ہوئے راستے میں کتنی رکاوٹیں کاٹ کھانے کو تیار ہیں، یہ سبق عمر کا قد اونچا ہو کر آگاہی سے دو چار ہونے کے بعد سمجھ میں آنے لگا، 

 مجھے لگتا تھا لوگ اپنے جنم بھومی کو چھوڑ کر دیار غیر تک موج مستی کرنے جاتے ہیں، واں انکے لئے نوکر چاکر موجود ہیں جو کے انکی خدمت کی جاتی ہے، انکی ہر مطلوب چیز بن مانگے انکو مل جاتی ہے، انکے رہنے کا الگ انتظام ہے، وہ بس بیٹھ کر اپنی زندگی سے محظوظ ہوتے ہیں، اس سوچ کا قتل عام اس وقت ہوا جب اسکول سے فراغت کے بعد پہلی مرتبہ اپنے گاؤں سے شہر کی طرف ہجرت کرنا پڑی،

اس وقت ذھن میں ایک خیالی دنیا رچ بس گئی تھی، سوچ کا محور مال و دولت کے اردگرد گھوم رہا تھا، بیٹھے بیٹھے اربوں کمائی کا رہ رہ کے خیال آ رہا تھا، خود کو ایک عالیشان بنگلے کے گیٹ سے داخل ہوتا محسوس کیا، اور اندر جاتے ہی ہر طرف سے مہمان نواز افراد کو خاطر مدارت میں مامور پایا، یوں زندگی کے محظوظ کن لمحات تک پہنچ گیا، 

خیر پھر واں کی صورتحال دیکھ کر اپنی پیدائش سے لے کر ہنوز تک جو کچھ کھایا، پیا اور پہنا…. وہ ساری چیزیں مشقت کی آخری حد ہونے کا اندازہ بخوبی ہوا، ابو اور بھائی کے ہاتھ میں جو چھالے ہوتے تھے، اور انکو بیماری کا رنگ دے کر چھپایا جاتا تھا، نحیف بدن کی وجوہات مزدوری کے باؤجود گرمی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا، یہ تمام چیزیں آگاہی اور مشاہدے کے بعد معلوم ہوگئی تھیں، کس طرح مشکل کام ہے، اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر میں در بدر ہونا، اسکے بعد جب بھی کسی کے ہاتھ کے چھالے دیکھتا ہوں، آنسو بے اختیار رخسار کو تر کرتے ہیں، اور یہ وہ احساس کے آنسو ہیں، 

لٹ گیا جو ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم، 

اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے، 

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گنی ہوتی ہے، 

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے، 

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button