کالم نگار

فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صوتحال

تاریخی حقائق اور مستقبل میں آنے والے واقعات، دنیا ایک بار پھر عظیم عالمی جنگ کے راستے پر۔

 

احمد علی

طالب علم بین الاقوامی تعلقات عامہ

فلسطین اور اسرائیل کی موجودہ صورتحال، تاریخی حقائق اور مستقبل میں آنے والے واقعات۔ دنیا ایک بار پھر عظیم عالمی جنگ کے راستے پر زندگی میں کبھی آپ کو تاریخ کے اوراق پرکھنے کا موقع ملا تو یہ بات آپ کو روزِ روشن کی طرح عیان ہو جائے گا کہ جب جب قوم پرستی، مذہب پرستی، اور نسل پرستی اپنی انتہا کو پہنچی ہے اس کا انجام اتنا ہی بھیانک اور خوف ناک نکلا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال ماضیٔ قریب میں یورپ کی سر زمین پر لڑی جانے والی دو عظیم خون ریز جنگیں ہیں، جن کی وجہ سے یورپ کی آدھی آبادی صفحۂ ہستی سے مٹ چکی تھی اور دنیا میں بھوک و افلاس، قحط و فاقہ ، قتل و غارت، خوف و ناامیدی پھیل چکی تھی۔ ان دو عظیم معرکوں کی محرکات میں یہ تین غلاظ اور انتہا پسند نظریات آپ کو سر فہرست نظر آئینگی۔

اس لیے آقائے دو جہاں، سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی حج الوداع کے موقع پر ہمیں ان خرافات سے بچنے کی یوں تلقین کی کہ ہر آنے والا انا پرست و مغرور کو یہ بات واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل اہمیت شکل و صورت، حسب ونسب، قوم و ملت کے بجائے تقویٰ اور پرہیز گاری کو ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس قانون قدرت کے خلاف جاکر اقدام کرنا انسانیت کے بقا کے لیے خطرہ ہ رحمت اللعالمیں صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:  ” لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں تلے ہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔اس خطبے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نسل پرستی، قوم پرستی اور مذہب پرستی جیسے کام جاہلوں اور نا فرمان لوگوں کا شیوہ ہے، جو کسی بھی طرح انسانیت اور امن عالم کے لیے مفید نہیں ہیں۔اب میں آپ کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف کرنا چاہوں گا اور امید کرتا ہوں آپ کو میری یہ حقیرسی کوشش حالات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔

گزشتہ روز یعنی 27 رمضان المبارک( 05-10- 2021) کی رات کو انتہا پسند اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کو دوران عبادت مسجد اقصیٰ کے اندر (جو کہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل تصور کیا جاتا ہے) انتہائی بے دردی اور سفاکی سے ظلم کا نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اصولوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے برسوں سے مظلوم مسلمان فلسطینیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جو کہ اسلامی دنیا کے لیے انتہائی افسوسناک اور نا قابلِ قبول عمل ہے۔ اسرائیل کے اس گھناؤنے کھیل کے پیچھے نسل پرستی، قوم پرستی، مذہب پرستی کے باطل نظریات کار فرما ہیں، جن کو دنیا یہودی لابی کے نام سے خوب سمجھتی ہے۔ جس کا مقصد تمام یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین میں آباد کرکے Greater Israel کی عظیم ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنا کر دنیا میں یہودی حکومت تشکیل دینا ہے، جسے کچھ مفکرین اور تاریخ دان دجال کے آنے کی تیاری کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ اس کارِ بد میں بہت سے مغربی مشرک قوتیں مختلف مذہبی، سیاسی، اور معاشی وجوہات کی وجہ سے پیش پیش ہے، جس میں امریکا سر فہرست ہے۔ کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جو اس پروپیگنڈہ کی brief عکاسی کرتی ہیں، مگر ان کو بیان کرتے کرتے شاید ایک پوری کتاب تشکیل دی جاسکتی ہے لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔ 

Greater Israelکے اس پروپیگنڈہ کو شروع میں برطانیہ اور بعد ازاں امریکا نے خفیہ طور پر پروان چڑھانے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔ اس mission میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کو اپنی راہ میں سب سے بڑی اور بنیادی رکاوٹ سمجھتے تھے، کیونکہ یہودی جس جگہ میں ہیکل سلیمانی (Dom of the Rock) موجود ہے، اس کے قریب ہی مسلمانوں کا پہلا قبلہ یعنی مسجد اقصیٰ قائم ہے تمام عالم اسلام کو اس مقام کے ساتھ گہری مذہبی اور تاریخی وابستگی ہے جو ناقابل تسخیر ہے، اسی وجہ سے یہودی قوتیں کسی طرح مسلمانوں کو وہاں سے نکال کر مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے تاگ میں ہیں، جو حدیث پاک کی روشنی میں قرب قیامت کی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔یہودیوں کی دو ہزار سالہ تاریخ کو جب آپ بغور مطالعہ کرینگے تو ہیکلِ سیلمانی کے concept سے آپ اچھی طرح واقف ہوں گے، یہاں بیان کرنے سے تحریر کافی لمبی ہوگی۔میں صرف سلطنت عثمانیہ کے دور کے کچھ اہم واقعات ایڈ کرنا چاہونگا۔ 1900 کی دہائی میں سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر تھی اسی دور میں یورپ کے اندر عیسائیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام بھی عروج پر تھا جس میں ہٹلر کی ہولوکاسٹ کے دستانیں تاریخ کے اوراق میں پتھرپر لکیر کی طرح درج ہیں۔ اسی اثنا میں کچھ یہودیوں نے جان بچاتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے زیرِ اثر علاقوں میں رہنے کی اجازت لے لی اور کچھ امریکا اور برطانیہ ہجرت کر گئے۔ سلطنت عثمانیہ نے ان یہودیوں کو انپے تسلط میں رہنے کی اجازت دے دی مگر ان کی Jerusalem یعنی فلسطینیوں میں آباد ہونے پر سخت پابندی عائد کردی گئی، جو ان کی برسوں سے خواہش اور مقصد تھی۔ 1919ء میں جنگ عظیم اول کا اختتام ہوتا ہے، جس میں سلطنت عثمانیہ کو یہودیوں اور یورپیوں کی سازشوں کی وجہ سے شکست سےدو چار کرکے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ فلسطینیوں کا علاقہ برطانیہ کے ہاتھ لگ گیا، جس کو بعد میں مغربی ممالک نے مذہبی، نسلی، اور معاشی مفادات کی بنیاد پر یہودیوں کو یکجا کرنے کے لئے چن لیا اور دنیا کے ہر گوشے سے یہودیوں کو فلسطین کے علاقے میں آباد ہونے کے لیے سازگار ماحول عطا کیا گیا۔ اس کے بعد دنیا بھر سے یہودی گاہ بہ گاہ فلسطین میں انپا قدم جمانے میں کامیاب ہو گئےیہی وہ دن تھا جب اسلام کے سینے میں اسرائیل کی صورت میں خنجر گھونپا گیا اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کے مابین نسلی، مذہبی، نظریاتی اور جغرافیائی فسادات کو ہوا دینے کے لیے اسرائیل کی چنگاری کو متحدہ مسلمانوں کی مابین انتہائی چالاکی کے ساتھ پروان چڑھایا گیا۔ جس کا نتیجہ 1967ء میںعرب اسرائیل جنگ سے شروع ہوتا ہے، 1948ء میں اسرائیل کا ریاست بننے تک اور پھر مشرقِ وسطیٰ کی تباہی کے شکل میں سب کے سامنے ہے، یہی وہ منہوس گھڑی تھی جس کے سبب فلسطین میں آج بھی صفِ ماتم بچھا ہوا ہے اور مسلمانوں کے مقدس مقام صامد ان کی جان و مال اور عزت و آبرو تک پامال کیا جارہا ہے۔ حالات مزید گھمبیراور خوفناک ہوتے جارہےہیں، اسرائیلی ظلم کے جواب میں غزہ سے فائر کی جانے والی ٪90 missiles اسرائیل نے Iron Dom defense system کے ذریعے ہوا میں ہی نکارہ بنا دیا ہے، اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کے خلاف حملے مزید تیز کرنے کا حکم دیا ہے، جس کی و جہ سے اسلامی ممالک میں عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اس situation میں امت مسلمہ کہاں کھڑی ہے، ہم کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، کیوں اسرائیل جیسے باطل قوتوں کے سامنے ہماری بولتی بند ہے، کیوں ہم ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہورے۔ کہاں ہے وہ مسلمانوں کی اکثریت ، کہاں ہیں ہماری توپیں، میزائل، ایٹمی ہتھیار، اور جدید جنگی ساز سامان۔ کب استعمال کرینگے ہم انپی نام نہاد قوتیں۔اللہ کی قسم اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس جنگی مہارت یا جنگی ساز و سامان کی کمی ہے اصل مسئلہ تو یہ کہ ہمارے پاس وہ جذبۂ ایمانی، وہ علم نورانی اور حلم عثمانی کی کمی ہے جو ہمارے اجداد میں تھی۔ ہتھیارتو ہزاروں ہیں مگر اس کو چلانے کے لیے وہ مضبوط جگر اور ہنر دونوں کا ہونا لازمی ہے جو ہمارے اجداد کا شیوہ تھا، ہم نے اسلاف کے بتائے ہوئے راستوں اور طریقوں کو پسِ پشت کر کے ان نام نہاد قوم پرست، مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں خود کو رسوا کیا ہے۔آج وہ ہمارے ذہنوں کو اپنی مرضی سے کھلونوں کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ہم پر غالب رہتے ہیں، ہم میں اگر کوئی کمی ہے تو بس علم، حکمت، جرأت اور دور اندیشی کی ہے۔ ہمیں اس طرح خاموش تماشائی بن کے نہیں بیٹھنا چاہیے ورنہ آنے والے حالات اس سے بھی سخت ہوں گے، اگر یہی حالات رہے تو یہودی، مشرک جیسے قوتیں تمام عالم اسلام کو انپے لپیٹ میں لے لیں گے اور دنیا کو بربادی کی طرف دھکیل دینگے۔ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان اقوال اور پیشگوئی کو سامنے رکھتے ہوئے دور اندیشی اور حکمت عملی سے ان کے لیے تدبیر کرنی ہوگی جو آگے پیش آنے والے ہیں۔ اسرائیل کا گزشتہ روز مسجد اقصیٰ کے اندر مسلمانوں کا گراؤ اور ان پر کیا جانے والا تشدد اس بات کا منہ بولتاثبوت ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے نقرے بج چکے ہیں اور آگے آنے والے عشروں میں اسرائیل کے ہاتھوں مسجدِ اقصیٰ کی شہادت اس جنگ کی پہلی سیڑھی ثابت ہو گی ۔ یہ وہ عالمی جنگ ہوگی جس میں ایک طرف حق اور دوسری طرف باطل کھڑی ہوگی۔ جس کے متعلق ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک پہلے سے موجود ہے۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم لوگ جزیرة العرب کے لوگوں سے جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ ﴿ تمہارے ہاتھوں ﴾ اسے فتح کر دے گا پھر تم اہل فارس کے خلاف جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ اسے بھی فتح کر دے گا پھر تم اہل روم کے خلاف جہاد کرو گے اللہ اسے بھی فتح کر دے گا پھر تم دجال کے خلاف جہاد کرو گے اور اللہ اسے بھی فتح کر دے گا۔ (مسلم)   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح دوسرے فتنوں کے بارے میں امت کو آگاہ فرمایا ہے اسی طرح بعض جنگوں کے بارے میں بھی پیش گوئیاں فرمائی ہیں ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ امت محمدیہ کا سب سے پہلا جہاد سرور عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قیادت میں مشرکین مکہ کے خلاف میدان بدر میں لڑا گیا اور سب سے آخری جہاد سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی قیادت میں آنے والے عشروں میں یہودیوں کے خلاف سر زمین فلسطین میں لڑا جائے گا ۔ معرکہ بدر سے لے کر قتال دجال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چار اہم فتوحات کی پیش گوئی فرمائی ہے جن میں سے دو تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام کے دور میں ہوچکی ہیں اور تیسری جنگ دو عالمی جنگوں کی شکل میں واقع ہوچکی ہے۔ اب جو آخری جنگ ہوگی وہ بہت ہی خون ریز اور وسیع پیمانے پر ہو گی جو جھوٹے بڑے معرکوںاور جنگوں پر مشتمل ہوگی۔ ان میں کچھ کے بارے میں اسلام نے پہلے ہی ہمیں آگاہ کیا ہے ، جسے ہرمجدون، اماجدون یا Armageddon جو ایک ایسا میدانِ کارزار ہو گا جہاں قُربِ قیامت حق وباطل کی قوتوں میں حتمی اور فیصلہ کن جنگ ہوگی۔اس کے علاوہ غزوہ ہند کا بھی کافی تفصیل کے ساتھ ذکر حدیث میں آتا ہے۔ غزوہ ہند یا حدیث غزوہ ہند پیغمبر اسلام محمدﷺ کی پیش گوئِیوں میں مذکور ایک جہاد ہے جس کے متعلق چند احادیث مروی ہیں۔ اس پیش گوئی کے مطابق برصغیر میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ایک عظیم الشان جنگ ہوگی جس میں وہ کامیاب ہونگے۔ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان کو چاہئے کہ ان واقعات کو نظر انداز کر نےبجائےفہم و فراست کے ساتھ ان کے اوپرتدبیر کرے اور حق و باطل کی اس لڑائی میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ روز محشر خالق اور اس کے محبوب کے سامنے اطمینان کے ساتھ کھڑا ہو پائے۔یہ بات ذہن نشین کریں اللہ پاک کا قانون ہے دنیا میں ہمیشہ حق اور باطل کی کشمکش ہوتی ہے، جہان باطل ہوتا ہے وہاں حق کا ہونا لازم و ملزوم ہے، اور اللہ تعالیٰ کی کتاب سے یہ بات واضح ہے کہ یہودی سب سے بڑے مکار ، فسادی اور باطل قوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بحیثیت بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کے طالب علم میری ذاتی understandings اس حوالے سے بہت ہی صاف اور واضح ہیں۔ International relations کے ایک اہم اور بنیادی نظریہ کے مطابق جنگ ایک قدرتی عمل ہے جو انسان کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں اور کبھی بھی اور کسی وقت بھی چھڑی جاسکتی ہیں۔ تاریخ اور ہمارے عقیدے سے ہمیں یہ بات واضح ہے کہ دنیا کا نظام کبھی بھی ایک جیسا نہیں رہا ہے یہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہمیشہ حق کا باطل کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا آیا ہے جس میں ہمیشہ باطل کی مات ہوئی ہے۔ اگر بین الاقوامی تعلقات عامہ کے نظریات کو بھی سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آنے والا عشروں میں دنیا ایک بار پھر عظیم عالمی جنگ کا حصہ بننے جارہی ہے جو اوپر لکھی گئی اسلامی پیشگوئیوں کی ھو با ھوعکاسی کرتی ہے۔ اس بات سے نظریں چرانا حماقت ہوگی کہ دنیا کے نظام پر یہی یہودی قابض ہیں جو امریکہ جسے باطل قوت کے معاشی اور تیکنیکی صلاحیتوں کے ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہودیوں کے ناپاک عزائم کے بارے میں میں نے اوپر تفصیل سے لکھا ہے۔ اسلام دشمنی، فسادات، قتل و غارتگری،نسل پرستی، مذہب پرستی اور دنیا پر حکومت کرنے کا نشہ ان کے ایمان کا حصہ ہے اور یہ کبھی بھی اس سے باز نہیں آئینگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کو واضح طور پر جاہل ترین لوگوں میں شمار کیا ہے، جہالت کا انجام ہلاکت ہے اور یہودی یقیناًجہالت کی ہی موت مرینگے۔ ہمیں باہمی گٹ جوڑ اور اتفاق کے ساتھ آنے والے واقعات سے نبرد آزماہونا ہوگا اسی میں ہی ہماری اور ہمارے دین کی بقا ہے۔ 

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

نوٹ: تحریر میری ذاتی رائے اور معلومات کا مجموعہ ہے آپ اس پر تنقیدی و اصلاحی دونوں رائے کا اظہار کھلے دل سے کر سکتے ہیں مجھ جسے کم فہم کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔۔ 

  شکریہ

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button